ملالہ فوبیا کے شکار افراد کے نام

ملالہ کی کسی بات سے اختلاف رائے آپ کا حق ہے اور نہ صرف اختلاف کیجیے بلکہ ان پر مہذب انداز میں تنقید بھی کیجیے مگر تب جب وہ اس سب کی متحمل ہوں کیونکہ نہ تو وہ اس ملک کی وزیر اعظم ہیں اور نہ ہی ہم نے ان کو ووٹ دے کر کسی عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔

ملالہ یوسفزئی کی پیرس میں جی سیون ترقی اور تعلیم کے اس سال جولائی میں ایک اجلاس میں شرکت کے موقع پر لی گئی تصویر (اے ایف پی)

کہتے ہیں کہ اس قدر جھوٹ بولو کے وہ سچ لگنے لگ جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بعض حلقے بظاہر صبح شام اسی کام کے لیے مختص ہیں۔

یوٹیوب پر گذشتہ دنوں ایک ویڈیو کلپ گردش کرتا دکھائی دیا جس میں ایک موصوف سچ کو جھوٹ کے پردے میں بند کر کے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سے متعلق ایسی من گھڑت کہانی پیش کر رہا تھا جیسے کوئی سنار چاندی پر سونے کا پانی چڑھا کر اسے گاہک کو پیش کر دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویڈیو میں حقیقت سے کوسوں دور باتیں بیان کی گئیں مثلاً ملالہ یوسفزئی پاکستانی ہی نہیں بلکہ کاکوزی ہیں اور ان کا تعلق بھی پولینڈ سے ہے۔ یہ بات سنتے ہی مجھے ہنسی آگئی اور دماغ یکدم یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ پتا نہیں ان لوگوں کو یہ سب کر کے کیا ملتا ہوگا؟ کیا انہیں خدا کا خوف نہیں یا پھر انہوں نے مرنا نہیں! جو ایک معصوم بچی کے بارے میں اتنے بڑے بڑے مگر سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ ملالہ یوسفزئی اپنی کتاب ’میں ہوں ملالہ‘ میں اپنے گھر اور خاندان کے بارے میں سب کچھ لکھ چکی ہیں۔

کالم نگار ارشاد بھٹی نے گذشتہ دنوں ایک ٹویٹ کی جس میں لکھا کہ ’‏وہ ملالہ یوسفزئی سے پوچھنا تھا کہ گذرے دو ہفتوں سے مقبوضہ وادی میں سکول، کالج بند اور ہزاروں بچے، بچیاں گھروں میں قید ہیں۔۔ کوئی بیان، کوئی پریس کانفرنس کوئی ہلکا پھلکا اجتجاج ہی۔۔ آپ کو تو روزانہ اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔۔ اس خاموشی کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘

اس کے جواب میں ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے لکھا کہ ’بھٹی صاحب! ملالہ نے 18 اگست كو جو بیان دیا اس پر 21 ہزار كمنٹس آئے ہیں اور انٹرنشنل میڈیا نے خوب كوریج دی ہے۔ مگر آپ جیسے لوگوں كو تو اس رزم گاہ میں بھی ملالہ اور دوسرے سیاسی مخالفین پر تیر اندازی كر كے كشمیر فتح كرنا ہے۔ یہ حالت رہی تو۔ ‎‘#كشمیریوں كا اللہ ہی مالک! شكریہ۔

پھر کیا تھا ارشاد بھٹی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔

شاعر اور مصنف توقیر بھٹی ارشاد بھٹی کے جواب میں  لکھتے ہیں ’بھٹی صاحب کشمیر پر گفتگو یقیناً ضروری ہے اور سبھی اپنے طور پر بھارت کی مذمت کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کے صحافتی کرئیر کا تو علم نہیں مگر ٹی وی پر آپ کی ایجاد سے آج تک اگر آپ نے ملک میں کسی بھی برادری کے ساتھ حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزی پر کوئی ایک بیان بھی دیا ہو، تو مطلع کیجیے۔‘

صحافی و بلاگر رجب علی فیصل نے بھٹی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ’‏یہ سوال اپنے وزیر اعظم سے پوچھو..اداروں سے پوچھو..گڈ طالبان سے پوچھو..پیدا کردا اپنی جہادی تنظیموں سے پوچھو۔۔۔جو صاحب اختیار ہیں ان سے پوچھو انہوں نے کشمیر کے لیے کیا کردار ادا کیا۔۔ اتنی فکر ہے کشمیریوں کی تو جہاد جیسی نعمت مت ضائع کریں اب اچھا موقع ہے ..بسم اللہ کریں۔۔۔‘

ایک اور ٹوئٹر صارف رحیم داوڑ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ’ملالہ نے اپنے حصے کا احتجاج کیا ہے لیکن یہ مسئلہ احتجاجوں سے حل ہونے والا نہیں ہے حکمرانوں کو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے جو کہ ابھی تک نہیں اٹھائے گئے۔ اگر صرف ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے سے کشمیر آزاد ہونا ہوتا تو اب تک 25 مرتبہ ہم کشمیر کو آزاد کروا چکے ہوتے۔‘

یہ صرف بھٹی صاحب تک محدود نہیں تھا بلکہ کئی لوگوں نے میمز بنا کر ملالہ سے یہی سوال پوچھا۔ لیکن ایک مقامی اخبار نے تو 20 اگست 2019 کو جھوٹ کی انتہا کر دی جب اپنے صفحہ اول پر یہ جھوٹی و بےبنیاد خبر کے ساتھ کچھ تصویریں لگائی دیں جنہیں حقائق کے برعکس پیش کیا گیا اور ان میں سے ایک تصویر کے نیچے بنا کسی تحقیق کے یہ تک عبارت دے دی گئی کہ ’ملالہ یوسفزئی ملعون سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے ساتھ ایک تقریب میں۔‘

 جب کہ یہ محض ایک پروپیگنڈا ہے جس کی حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ سخاروف ایوارڈ کے لیے ملالہ یوسفزئی کو بلایا گیا تھا جس میں تسلیمہ نسرین واقعی موجود تو تھیں پر ملالہ کی ان سے کوئی شناسائی اس وقت تک نہ تھی اور دوسرا جس شخص کو سلمان رشدی بتایا گیا وہ سلمان رشدی نہیں بلکہ یورپین پارلیمنٹ کا صدر مارٹن شولز ہے اور اسے ایوارڈ دینے کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

جن لوگوں کو تسلیمہ نسرین کی ملالہ کے ساتھ سخاروف تقریب میں لی گئی گروپ فوٹو پر اعتراضات ہیں اور ان کے ذریعے منفی پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں انہیں تسلیمہ نسرین کی وہ ٹویٹس بھی دیکھ لینی چاہیئے جن میں وہ ملالہ یوسفزئی کے دوپٹہ اوڑھنے اور تقریب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سے خطاب شروع کرنے پر اعتراضات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ملالہ کی کسی بات سے اختلاف رائے آپ کا حق ہے اور نہ صرف اختلاف کیجیے بلکہ ان پر مہذب انداز میں تنقید بھی کیجیے مگر تب جب وہ اس سب کی متحمل ہو کیونکہ نہ تو وہ اس ملک کی وزیر اعظم ہے اور نہ ہی ہم نے ان کو ووٹ دے کر کسی عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔ آج وہ جس مقام پر ہیں اس کے پیچھے ان کی دردناک تاریک کہانی اور بےشمار قربانیاں ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اکیلی ملالہ کو غدار ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ ہم تو وہ بدنصیب قوم ہیں جن کے نام نہاد محب وطن طبقے نے ہم سے ہمیشہ ہر اس محب وطن پاکستانی کو غدار کہلوایا جس نے عام آدمی  کے حقوق کی بات کی۔ ملالہ کی ترجیح صرف تعلیم کے بارے کام کرنا ہے اور جب میں نے ان سے پاکستان آمد پر یہ پوچھا کے جب کچھ لوگ آپ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں تو آپ کیا سوچتی ہیں تو انہوں نے کہا تھا مجھے ایسے لوگوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسے افراد تعصب اور جھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل