’کھل نایک‘ کا وہ گیت جو سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر بین ہوا

فلم کھل نایک کے ایک گیت کا آنند بخشی سے مکھڑا سن کر ہدایت کار سبھاش گھئی کے اوسان کیوں خطا ہوگئے اور ان کے ہاتھ سے قلم کیوں گر گیا؟ انہوں نے کیوں کہا کہ ’کیا بلوہ کرانے کے مود میں ہیں؟

فلم کی تفصیلات کم ہی لوگوں کو معلوم ہوں گی مگر یہ گیت اکثر کو یاد ہے (مکتا آرٹس)

30 سال بیتے کہ بالی وڈ میں ایک فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی، ’کھل نایک۔‘ فلم نے خوب بزنس کیا، مگر یہ سال کی سب سے زیادہ کمائی والی فلم نہیں تھی۔ آج بہت کم لوگوں کو فلم کی کہانی یاد ہو گی، بلکہ فلم کے ہیرو سنجے دت اس فلم کی بجائے اسی زمانے میں غیر قانونی اسلحہ کیس کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔

لیکن اس فلم کا ایک گیت ایسا ہے جو ان لوگوں کے لیے بھی جانا پہچانا ہے جنہوں نے فلم ’کھل نایک‘ کا نام تک نہ سنا ہو۔

یہ گیت تھا، ’چولی کے پیچھے کیا ہے،‘ جس کے بولوں پر اتنی کڑی تنقید ہوئی کہ اسے ’آل انڈیا ریڈیو‘ اور ’دور درشن‘ دونوں پر بین کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ اس کے خلاف مظاہرے تک ہوئے، مگر انڈیا کی فلمی موسیقی سے معمولی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی یہ گیت آج بھی تازہ تر ہے۔ یو ٹیوب پر اس گیت کے مختلف ورژن موجود ہیں، جن کے مجموعی ویوز کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ دوسرے سوشل پلیٹ فارمز اور سٹریمنگ سروسز کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس گانے کی نقلیں، چربے اور اس پر جو میمز بننے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ’چولی کے پیچھے‘ بالی وڈ کا پہلا آئٹم نمبر ہے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اسی گیت سے ’آئٹم سانگ‘ کی روایت کو اتنی تقویت دی کہ آج انہیں آج بالی وڈ کی بلاک بسٹر فلموں کا لازمی خاصا سمجھا جاتا ہے۔ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ’چولی کے پیچھے‘ اتنا ہٹ نہ ہوتا تو شاید ’شیلا کی جوانی،‘ ’منی بدنام ہوئی،‘ جیسے گیت بھی نہ جنم لیتے۔

یہ گیت اتنا مقبول کیوں ہوا؟ بولوں کے جنسی پہلو کی وجہ سے، جسے اردو شاعری کی اصطلاح میں ذم کا پہلو کہتے ہیں، یا پھر اس کی پرجوش دھن اور اس دھن پر مادھوری کا رقص لوگوں کے دل موہ گیا؟

ہمارے خیال سے یہ تینوں وجوہات تھیں جو اس گیت کو عوامی کلچر کا حصہ بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ آج ہم آپ کو اس گیت کی تخلیق اور فلم بندی کی کہانی سنا رہے ہیں۔

گیت کے بول سن کر سبھاش گھئی کے اوسان خطا

ہدایت کار سبھاش گھئی کے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا تھا۔ نغمہ نگار آنند بخشی نے گیت کے بول ہی ایسے لکھوانے شروع کیے تھے کہ مکھڑا ہی سن کر سبھاش گھئی کے اوسان خطا ہو گئے۔

ٹیلی فون پر ہونے والی اس گفتگو کے دوسرے سرے پر موجود آنند بخشی نے ایک بار پھر مکھڑا دہرایا، ’چولی کے پیچھے کیا ہے۔‘

سبھاش گھئی نے اس دوران گرے ہوئے قلم کوجھک کر اٹھایا اور آنند بخشی سے گویا ہوئے، ’بخشی صاحب، کیوں بلوہ کرانے کے موڈ میں ہیں؟‘

نغمہ نگار آنند بخشی نے سبھاش گھئی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، ’لکھو۔ چنری کے نیچے کیا ہے۔ چولی میں دل ہے میرا، چنری میں دل ہے میرا۔ یہ دل میں دوں گی اپنے یار کو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالی وڈ میں شومین کہلائے جانے والے سبھاش گھئی 90 کی دہائی میں ’سوداگر‘ کی کھڑکی توڑ کامیابی کے بعد اب سنجے دت، مادھوری ڈکشٹ اور جیکی شروف کو لے کر فلم ’کھل نایک‘ بنانے جا رہے تھے۔

عکس بندی عروج پر تھی جبکہ فلم کے ایک گانے کے لیے سچویشن آنند بخشی کو بتائی گئی۔ نغمہ نگار کے علم میں لایا گیا کہ ہیروئن مادھوری ڈکشٹ جو دراصل پولیس اہلکار ہیں اور گینگسٹر سنجے دت کے گروہ میں رقاصہ بن کر شامل ہو جاتی ہیں۔ اب ایسے میں ایک جگہ یہ قافلہ جب پڑاؤ کرتا ہے تو یہاں ایک مجرہ ریکارڈ کیا جانا تھا۔

آنند بخشی نے سبھاش گھئی سے وعدہ کیا کہ وہ شام تک ان کے لیے گیت لکھ دیں۔ شام کے سائے گہرے ہوئے تو سبھاش گھئی کو یاد آیا کہ نغمہ نگار کو فون کر کے معلوم کیا جائے کہ گانا تیار ہوا کہ نہیں۔ تب انہوں نے ہدایت کار کو حکم دیا کہ کاغذ قلم سنبھالیں اور گیت لکھنا شروع کریں۔

سبھاش گھئی نے جیسے ہی مکھڑا ’چولی کے پیچھے کیا ہے؟‘ سنا تو ان کے ہاتھ سے قلم نکل کر زمین پر جا گرا۔ آنند بخشی جیسے جیسے گیت سنا رہے تھے سبھاش گھئی کو لگا جس گانے کو وہ عامیانہ یا ذومعنی سمجھ رہے تھے وہ تو واقعی بہترین تخلیقی کاوش ہے۔

پاکستانی گانے کی دھن کا چربہ

موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال کو گیت سنایا گیا تو انہوں نے 1974 میں نمائش پذیر ہونے والی پاکستانی فلم ’دو بدن‘ کے ایک گیت ’رات دے بارہ بجے‘ کی دھن پر ہاتھ صاف کرنے کا پہلے ہی سوچ لیا تھا۔

پاکستانی موسیقار ایم اشرف اور ملکہ ترنم نور جہاں کے اس گانے کی دھن میں معمولی تبدیلی کی گئی بس اسے جدید آلات موسیقی سے آراستہ کر دیا۔  

گیت کے لیے گلوکارہ الکا یاگنک اور الا ارون کی آوازوں کے استعمال کا فیصلہ ہوا۔ الکا یاگنک نے جب بول سنے تو انہیں کچھ خدشات اور تحفظات تھے لیکن انہوں نے سکھ کا یہ سانس لیا کہ گانے کی پہلی لائن ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ ان کو نہیں بلکہ الا ارون کو پورے گیت میں گانے تھے۔

الا ارون کی والدہ کی برہمی

بہرحال گیت بن کر تیار ہوا اسے جب گلوکارہ الا ارون کی والدہ نے سنا تو سخت برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہاں تک بیٹی سے کہا کہ اس نوعیت کے ذومعنی گیت گا کر اپنا کیوں معیار گرا رہی ہو؟

اس زمانے میں فلم کی نمائش سے پہلے اس کے گانے پہلے ریلیز ہو جاتے تھے۔ ’چولی کے پیچھے‘ پر خاصی لے دے ہوئی اور کہا گیا کہ آنند بخشی کی نغمہ نگاری کو کیا ہو گیا ہے۔

دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ گیت میں کوئی ایسی قابل اعتراض بات ہے ہی نہیں، بلاوجہ کا وبال کھڑا کیا گیا ہے۔ سبھاش گھئی کہتے ہیں کہ تنازعات سے گھرے اس گانے کی وجہ سے ’کھل نایک‘ کی آڈیو کیسٹ ایک ہفتے میں ایک کروڑ کے قریب فروخت ہوئیں۔

’فحش کہنے پر مایوسی ہوئی‘

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں سبھاش گھئی نے بتایا کہ انہوں نے ’چولی کے پیچے کیا ہے‘ کو لوک گیت کے طور پر لیا اور اسے فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب لوگوں نے گانے کو فحش قرار دیا تو گھئی کو اس پر مایوسی ہوئی۔ سبھاش گئی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جب فلم ریلیز ہوئی تھی، تو اس گیت کے خلاف ملک میں احتجاج ہو رہا تھا۔ 

اس گانے کی عکس بندی کا پس منظر راجستھانی ماحول تھا۔ ہیروئن مادھوری ڈکشٹ اس گانے میں حصہ لینے کے لیے خاصی پرجوش تھیں۔ کشادہ حویلی کا سیٹ لگا تھا۔ مادھوری ڈکشٹ کئی دنوں سے اس گانے کی ریہرسل ڈانس ڈائریکٹر سروج خان کے ساتھ کر رہی تھیں جبکہ ان کے ساتھ نینا گپتا تھیں جن پر الا ارون کی آواز کا انتخاب ہوا تھا۔

مادھوری بیمار پڑ گئیں

اتفاق سے جس دن سبھاش گھئی کو یہ گانا ریکارڈ کرنا تھا، اسی دن مادھوری ڈکشٹ سخت بیمار پڑ گئیں۔ ہدایت کار تو پریشان ہو گئے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اتنی مشکل سے جو انہوں نے اداکاروں کو اکٹھا کیا ہے، ان کی تاریخیں آگے چل کر ملیں نہ ملیں۔

کشمکش کا شکار سبھاش گھئی نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کا حل نکال لیا۔ وہ کچھ یوں کہ انہوں نینا گپتا کے مناظر تو عکس بند کرانے کا ارادہ کیا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نینا گپتا کے اضافی تاثرات بھی ریکارڈ کریں گے۔ یہ تاثرات ایسے ہوں گے جیسے وہ مادھوری ڈکشٹ کے بول سن کر ان پر اظہار کر رہی ہیں۔

یوں پہلے نینا گپتا کے کام کے ساتھ ساتھ اضافی حصہ بھی عکس بند کیا گیا۔ ادھر جیسے ہی مادھوری ڈکشٹ کا بخار کم ہوا وہ فوری طور پر عکس بندی کے لیے تیار ہو گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی گانے کا ایک مردانہ ورژن ونود راٹھور کی آواز میں ریکارڈ ہوا جس پر رقص سنجے دت نے ساتھی رقاصاؤں کے ساتھ کیا۔

فلم ’کھل نایک‘ چھ اگست 1993 کو نمائش پذیر ہوئی تو سنیما گھروں میں آنے سے پہلے ہی سنجے دت کی غیر قانونی اسلحہ کیس میں گرفتاری ہوئی تو ’کھل نایک‘ کو اور شہرت مل گئی۔

سبھاش گھئی نے فلم کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے منفرد منصوبہ بناتے ہوئے مختلف شہروں میں 11 پریمیئرز کا اہتمام کیا۔

اس کا نتیجہ خاطر خواہ نکلا اور فلم نے کمائی کے نئے ریکارڈز قائم کر دیے۔ اگلے برس جب فلم فیئر ایوارڈز ہوئے تو ’کھل نایک‘ نے سب سے زیادہ 11 کیٹگریز میں نامزدگی حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ الکا یاگنک اور الا ارون ’چولی کے پیچھے‘ پر بہترین گلوکارہ، جبھی اسی گانے پر سروج خان بہترین ڈانس ڈائریکٹر کا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔

یہی دونوں ایوارڈز صرف ’کھل نایک‘ کے حصے میں آئے۔ ’چولی کے پیچھے‘ پر تنقید کرنے والوں نے اسے بالی وڈ کا ماسٹر پیس قرار دیا۔ لیکن المیہ یہ رہا کہ اس گانے کو کچھ ہدایت کاروں اور نغمہ نگاروں نے وجہ بنا کر بالی وڈ میں ذومعنی گیتوں کی بھرمار کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ