سپارکو اور اسرو: کیا خلائی پروگرام کا کوئی موازنہ بنتا ہے؟

انڈیا کے کامیاب چندریان مشن کے بعد سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستانی خلائی ایجنسی سپارکو کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے؟

دائیں جانب پاکستان کا 1962 میں داغا گیا راکٹ رہبر اول (پبلک ڈومین) اور بائیں جانب انڈیا کا چندریان 3 (اسرو)

انڈیا کا خلائی مشن چندریان 3 چاند پر اپنا مشن مکمل کر چکا ہے اور چاند گاڑی ’پرگیان‘ نے چاند کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کی ہیں۔

مثال کے طور چندریان 3 کے حاصل کردہ ڈیٹا سے پتہ چلا ہے کہ چاند کی سطح کے اوپر اور سطح کے نیچے کے درجۂ حرارت میں بہت فرق ہے۔ جس جگہ سے انڈین چاند گاڑی نے ڈیٹا لیا، وہاں سطح پر درجۂ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تھا، لیکن سطح سے صرف چند ملی میٹر نیچے منفی 10 سیلسیئس تک گر گیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ چاند کی سطح گرمائش کی اچھی موصل نہیں ہے۔

چندریان 3 کی چاند گاڑی پرگیان نے پتہ چلایا کہ چاند کے جنوبی قطب پر گندھک موجود ہے۔ اس کے علاوہ چندریان 3 مشن نے 26 اگست کو چاند پر ایک زلزلے کا بھی سراغ لگایا۔

اس دوران بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کا خلائی تحقیق کا ادارہ سپارکو (سپیس اینڈ اپر ایٹماسفیر ریسرچ کمیشن) کہاں ہے اور اس کی کارکردگی کیا ہے؟

اسی سلسلے میں بدھ کو اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی میں ایروسپیس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈین ڈاکٹر عادل سلطان نے انڈیا اور پاکستان کی خلائی پروگراموں کا موازنہ اور جائزہ پیش کیا۔

انہوں نے شروع ہی میں کہہ دیا کہ دونوں ملکوں کے خلائی پروگراموں کا براہِ راست موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ انڈیا کے خلائی ادارے اسرو کا بجٹ 1.8 ارب ڈالر ہے جب کہ پاکستان کے سپارکو کا بجٹ صرف 36 ملین ڈالر ہے، یعنی انڈیا سے 50 گنا کم۔

انڈیا سپیس ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کتنا آگے ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عادل سلطان نے ’سپیس ریڈی نیس انڈیکس‘ میں پاکستان کو نو میں سے پانچ اور انڈیا کو نو میں سے پورے نو نمبر دیے اور کہا کہ انڈیا اس وقت دنیا کے کسی بھی سپیس پروگرام کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خلائی پروگرام انڈیا سے پہلے ہی، یعنی 1962 میں شروع ہو گیا تھا جب پاکستان ’رہبر اول‘ کے نام سے ایک راکٹ خلا میں بھیج کر یہ کارنامہ سرانجام دینے والا دنیا کا آٹھواں اور جاپان اور اسرائیل کے بعد ایشیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد پاکستان نے امریکہ کے تعاون سے متعدد راکٹ بھیجے جنہوں نے خلائی معلومات حاصل کیں، مگر پھر انڈیا کے ساتھ 1965 اور 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کا فوکس بدل گیا اور اس نے خلائی سائنس کی بجائے فوجی تحقیق کی جانب توجہ مرکوز کر دی۔

اس کے بعد 1974 میں جب انڈیا نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کیا تو پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کو اپنی قومی ترجیح بنا دیا۔

ڈاکٹر عادل کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کو انڈیا سے خطرہ تھا، اس لیے اس نے اپنے وسائل دفاعی ٹیکنالوجی کی طرف منتقل کر دیے اور خلائی تحقیق بہت پیچھے رہ گئی۔

دوسری جانب انڈیا کے پاس وسائل بھی زیادہ تھے اور ان کی ترحیجات بھی ہم سے الگ تھیں، اس لیے ان کا خلائی پروگرام بغیر کسی تعطل کے جاری رہا اور اسی کے نتائج ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر عادل نے بتایا کہ دنیا کی خلائی معیشت 2040 تک 10 کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور اگر انڈیا اس کا 10 فیصد بھی حاصل کر لیتا ہے تو یہ 100 ارب ڈالر کے برابر ہو گی۔ پاکستان کو سوچنا ہو گا کہ وہ اس مارکیٹ میں سے کیا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی خلائی معیشت میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان کو سویلین تحقیق کو فوجی تحقیق سے الگ کر کے ایک نئی خلائی ایجنسی قائم کرنی ہو گی، جس میں خلا سے متعلق ٹیکنالوجی کے ماہرین کام کریں۔

اس کے علاوہ پاکستان کو سپیس ٹیکنالوجی کے سویلین اطلاق کی طرف جانا ہو گا، دفاعی فوائد الگ سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ دوسرے ملکوں پر سے انحصار کم کر کے خود اپنی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔  

پاکستانی خلائی پروگرام، جو انڈیا سے پہلے شروع ہوا

شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان کا خلائی پروگرام انڈیا سے زیادہ پرانا ہے۔ پاکستان ’رہبر اول‘ کے نام سے سات جون 1962 ہی کو ایک راکٹ خلا میں بھیج کر یہ کارنامہ سرانجام دینے والا دنیا کا آٹھواں اور جاپان اور اسرائیل کے بعد ایشیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا۔

اس کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ 25 مئی 1961 کو امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کانگریس کے جوائنٹ سیشن میں اعلان کیا کہ امریکہ اس عشرے کے ختم ہونے سے پہلے ہی انسان کو چاند پر اتارنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

اس کے لیے امریکہ نے انتہائی سرگرمی سے اور انتہائی بڑے پیمانے پر تحقیق شروع کر دی۔ اس کا کچھ اندازہ اس مشن کے بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے، جو planetary.org نامی ویب سائٹ کے مطابق 28 ارب ڈالر تھا، جو 2020 میں تقریباً 280 ارب ڈالر بنتے ہیں۔

یہ منصوبہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین پروجیکٹس میں سے ایک تھا، جس کا موازنہ پہلا ایٹم بم بنانے کے مین ہیٹن نامی منصوبے یا دیوارِ چین کے تعمیراتی منصوبے سے کیا جاتا ہے۔

امریکہ کو اس مشن کے لیے بالائی فضا میں چلنے والی تیز ہواؤں کی لہروں کی ساخت کے بارے معلومات درکار تھیں۔ امریکہ کو احساس ہوا کہ اس مقصد کے لیے بحیرۂ ہند کے علاقے سے سب سے بہتر ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہیں سے خلائی سائنس میں پاکستان کی انٹری ہوتی ہے۔

جولائی 1961 میں صدر ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا، جس میں انہیں زبردست پذیرائی ملی اور صدر کینیڈی نے ہوائی اڈے پر مسٹر اور مسز ایوب کا استقبال کیا۔

صدر ایوب کے دورے کے دوران امریکہ نے پاکستان کو اپنے خلائی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی، جسے سن کر پاکستانی وفد کے ارکان حیرت زدہ رہ گئے۔

صدر ایوب نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اپنے وفد میں موجود نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام، جو ان کے سائنسی مشیر تھے، کو اس کام پر مامور کر دیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ایک نوجوان اہلکار ڈاکٹر طارق مصطفیٰ، جو اتفاق سے اس وقت امریکہ میں موجود تھے، کے ہمراہ ناسا کے ساتھ صرف دو دن کے اندر اندر معاملات طے کر ڈالے۔

ایک سال کے کم عرصے میں پاکستان خلا میں راکٹ داغنے کا اہل ہو گیا اور سات جون 1962 کو اس نے بلوچستان کے علاقے سونمیانی سے رہبر اول نامی راکٹ داغا، جس نے 130 کلومیٹر تک کی بلندی حاصل کی۔

اس کے بعد رہبر دوم داغا گیا۔ ان دونوں راکٹوں نے بالائی کرۂ ہوائی میں ہوا کے دباؤ اور سٹرکچر کے بارے میں ناسا کو اہم معلومات فراہم کیں۔ اس کے علاوہ اس مشن نے بادلوں کی تشکیل، سمندری طوفانوں اور بحیرۂ عرب میں موسم کے بارے میں قیمتی معلومات اکٹھی کیں۔

اس کے بعد پاکستان نے اگلے 10 سال میں دو سو کے قریب راکٹ خلا میں بھیجے۔ 1973 میں اپالو مشن میں حصہ لینے والے تین خلابازوں نے بھی پاکستان کا دورہ کیا جن کا بڑا پرشکوہ استقبال ہوا تھا۔

لیکن پھر بقول ڈاکٹر عادل سلطان کے، یہ تمام پروگرام دفاعی مقاصد کے لیے مختص کر دیا گیا اور سویلین تحقیق کہیں پیچھے رہ گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی