پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) 31 جولائی کو ایک نیا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے جا رہا ہے، جسے چین کے ژیچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانچ کیا جائے گا۔
سپارکو کے مطابق یہ سیٹلائٹ زمین کے مشاہدے کی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ کرے گا اور قومی ترقی میں مختلف سطحوں پر معاون ثابت ہوگا۔
سپارکو کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سیٹلائٹ پاکستان کے خلائی پروگرام کا ایک اہم سنگ میل ہے جو پریسجن زراعت، شہری ترقی، علاقائی منصوبہ بندی، آفات سے نمٹنے، ماحولیاتی نگرانی، قدرتی وسائل کے انتظام اور سی پیک جیسے بڑے منصوبوں کی معاونت کرے گا۔‘
ان کے مطابق ’یہ سیٹلائٹ فصلوں کی صحت کا اندازہ لگانے، پیداواری صلاحیت کا تخمینہ لگانے اور موثر زرعی طریقوں کو متعارف کروانے میں مدد دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلے اور لینڈ سلائیڈنگ کے بعد کے نتائج کا فوری اندازہ لگا کر بروقت امدادی کارروائیوں کی راہ ہموار کرے گا۔
پاکستان نے 9 جولائی 2018 کو چین کے جیوجوان لانچ سائٹ سینٹر سے اپنا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ سسٹم (PRSS-1) کامیابی کے ساتھ لانچ کیا تھا۔ PRSS-1 ایک لو ارتھ اوربٹ (LEO) سورج کے ساتھ ہم آہنگ سیٹلائٹ ہے اور اس میں آپٹیکل پے لوڈ ہے جس کی سپیشل ریزولوشن 0.98 میٹر ہے پنکرومیٹک موڈ میں اور 2.89 میٹر ہے ملٹی سپیکٹرل موڈ میں۔
یہ دنیا کے کسی بھی مقام پر چار دن کی دوبارہ وزٹ کی صلاحیت فراہم کرتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان نے واضح کیا کہ اگرچہ سیٹلائٹ زلزلے کی پیش گوئی تو نہیں کر سکتی لیکن اس کے بعد متاثرہ علاقوں اور نقصانات کا اندازہ فراہم کرے گی، جس کی بنیاد پر اقدامات کیے جا سکیں گے۔ اسی طرح سیلاب کی موجودگی، اس کے بہاؤ اور ممکنہ خطرات کے حوالے سے تفصیلی معلومات بھی حاصل ہوں گی، جو ریلیف سرگرمیوں کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوں گی۔
سیٹلائٹ شہری تعمیرات، زمین کے استعمال، جنگلات کی کٹائی، گلیشیئرز کی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط پر بھی گہری نظر رکھے گی تاکہ بہتر پالیسی سازی ممکن ہو سکے۔ ترجمان کے مطابق یہ سیٹلائٹ قومی سطح پر تمام متعلقہ اداروں کے لیے دستیاب ہو گا اور جب اس کی سروسز فعال ہو جائیں گی تو ادارے براہِ راست سپارکو سے رابطہ کر سکیں گے۔
یہ سیٹلائٹ پاکستان کے موجودہ ریموٹ سینسنگ بیڑے، یعنی PRSS-1 (جولائی 2018) اور EO-1 (جنوری 2025) کے ساتھ مل کر ملک کی خلائی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ لانچنگ سپارکو کے وژن 2047 اور قومی خلائی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کو خلائی ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانا اور ترقی کی نئی راہیں ہموار کرنا ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ اس سیٹلائٹ کی تیاری میں بین الاقوامی شراکت داروں کا بھی تعاون شامل ہے اور اس کا بنیادی ہدف خلائی ٹیکنالوجی کا پرامن استعمال ہے جو پاکستان کی اقتصادی، ماحولیاتی اور سائنسی ترقی میں مدد دے گا۔
پنجاب یونیورسٹی کے سائنس اینڈ سپیس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ سیٹلائٹ قومی سطح پر ایک اہم اضافہ ہے، جو موسم کی صورت حال کا تجزیہ کرنے، فصلوں کی پوزیشن، واٹر سٹریس، کھیتوں کی واٹر مینجمنٹ اور شہری منصوبہ بندی جیسے شعبوں میں نمایاں مدد دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر اس سیٹلائٹ میں پانی ناپنے والے بینڈز موجود ہوئے اور ان کی ریزولوشن بہتر ہوئی تو یہ فلڈ مانیٹرنگ کے لیے انتہائی مفید ہوگی۔ ان کے مطابق زمین کی اونچائی، بہاؤ کا رخ اور ممکنہ خطرات کی بروقت نشان دہی کی بدولت ہم کسی بھی قدرتی آفت کا بہتر مقابلہ کر سکیں گے۔
ڈاکٹر ضیا الحق کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں نئی نہیں، لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔ پہلے دیگر ممالک کی سیٹلائٹ سے ڈیٹا حاصل کرنا مہنگا پڑتا تھا، اب یہ ڈیٹا مفت دستیاب ہو گا، جس سے تحقیق اور پالیسی سازی کے مواقع بڑھیں گے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’اس سیٹلائت سے فصلوں کی پوزیشن بھی مانیٹر کی جا سکے گی اور ہمیں معلوم ہو گا کہ واٹر سٹریس کہاں پر ہے، کہاں پانی کی ضرورت ہے اس سے کھیتوں کی واٹر مینجمنٹ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس سیٹلائٹ کی ریزولوشن پر انحصار کرتے ہوئے ہم اس سے ہر طرح کی معلومات لے سکتے ہیں اور جب معلومات حاصل ہو گی تو اس کا تجزیہ کر کے اس سے اپنی پالیسی یا فیصلہ سازی باآسانی کر سکیں گے۔‘