امریکہ میں حکام کے مطابق امریکی فوج نے جمعے کو شام میں داعش کے درجنوں ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں۔ یہ حملے امریکی اہلکاروں پر ہونے والے ایک حملے کے جواب میں کیے گئے۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ کی قیادت میں قائم اتحاد شام میں داعش کے مشتبہ عناصر کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے اور زمینی کارروائیاں کرتا رہا ہے، جن میں اکثر شام کی سکیورٹی فورسز بھی شامل رہی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے شام میں داعش کے مبینہ حملے میں امریکی اہلکاروں کی موت کے بعد جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ ان حملوں میں ’داعش کے جنگجوؤں، ڈھانچے اور ہتھیاروں کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنایا گیا اور اس کارروائی کا نام ’آپریشن ہاک آئی سٹرائیک‘ رکھا گیا تھا۔
ہیگسیتھ نے کہا: ’یہ جنگ کا آغاز نہیں، یہ انتقام کا اعلان ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’آج ہم نے اپنے دشمنوں کا پیچھا کیا اور انہیں مارا۔ بہت سوں کو اور ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ شامی حکومت نے ان حملوں کی مکمل حمایت کی ہے اور امریکہ ’انتہائی سخت جوابی کارروائی‘ کر رہا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ ان حملوں میں وسطی شام میں 70 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور یہ بھی بتایا کہ اس کارروائی میں اردن کے لڑاکا طیاروں نے مدد فراہم کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک امریکی اہلکار کے مطابق یہ حملے امریکی ایف 15 اور اے 10 طیاروں، اپاچی ہیلی کاپٹروں اور ہائمارس راکٹ نظام کے ذریعے کیے گئے۔
شامی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق شام نے داعش کے خلاف لڑائی کے پختہ عزم کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ شامی سرزمین پر اس گروہ کے لیے ’کوئی محفوظ پناہ گاہ‘ موجود نہیں رہے گی۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وسطی شام کے شہر پالمیرا میں گذشتہ ہفتے کو ایک حملہ آور نے امریکی اور شامی افواج کے قافلے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں امریکی فوج کے دو اہلکار اور ایک سویلین مترجم جان سے گئے، جب کہ حملہ آور کو فائرنگ کر کے مار دیا گیا۔ اس حملے میں تین دیگر امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے۔
شام میں اب بھی تقریباً ایک ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
وزارت داخلہ نے حملہ آور کو شامی سکیورٹی فورسز کا رکن قرار دیا ہے، جس پر داعش کے ساتھ ہمدردی کا شبہ تھا۔
شام کی حکومت ان سابق باغیوں کی قیادت میں قائم ہے، جنہوں نے 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد گذشتہ سال بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ حکومت میں شام میں القاعدہ کی سابق شاخ کے ارکان بھی شامل ہیں جنہوں نے بعد میں اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کی اور ان کی داعش کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
شام داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم اتحاد کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور گذشتہ ماہ اس وقت اس حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جب شامی صدر احمد الشرع نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔