شام داعش مخالف اتحاد میں شامل

اس اعلان کے بعد شام اس اتحاد کا 90واں رکن ملک بن گیا ہے جو امریکہ کے ساتھ مل کر داعش کی باقیات کو ختم کرنے اور غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد روکنے کے لیے شراکت داری کرے گا۔

صدر احمد الشرع کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات کے چند گھنٹے بعد شام  نےعالمی شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

43  سالہ احمد الشرع کا اوول آفس کا یہ دورہ اس وقت ہوا جب واشنگٹن نے انہیں چند روز قبل دہشت گردی کی فہرست سے نکالا تھا۔ 

ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے پیر کو بتایا کہ ’دورے کے دوران شام نے اعلان کیا کہ وہ داعش کو شکست دینے کے لیے عالمی اتحاد میں شامل ہو رہا ہے۔

اس اعلان کے بعد شام اس اتحاد کا 90واں رکن ملک بن گیا ہے جو امریکہ کے ساتھ مل کر داعش کی باقیات کو ختم کرنے اور غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد روکنے کے لیے شراکت داری کرے گا۔

عہدیدار کے مطابق اس کے بدلے شام کو واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی بھی اجازت دی جائے گی تاکہ دمشق کے ساتھ انسداد دہشت گردی، سلامتی اور معاشی تعاون کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شام ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی خانہ جنگی کے بعد ’کامیاب ملک‘ بنے اور انہیں یقین ہے کہ ’احمد الشرع یہ کر سکتے ہیں۔‘

ٹرمپ نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’وہ (احمد) ایک مضبوط لیڈر ہیں۔ وہ ایک مشکل علاقے سے آئے ہیں اور وہ خود بھی سخت آدمی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ان کا ماضی برا تھا، ہم سب کا ماضی برا رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر کسی کا ماضی برا نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ ’شام مشرق وسطیٰ میں امن کے اس وسیع منصوبے کا اہم حصہ ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تاہم ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق سے انکار کیا کہ شام اپنے دیرینہ حریف اسرائیل کے ساتھ کسی عدم جارحیت معاہدے پر دستخط کرے گا یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملاقات کے بعد احمد الشرع نے فاکس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں کے تنازع کے باعث اس وقت امن مذاکرات میں شامل ہونا مشکل ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اور واشنگٹن کی ثالثی سے تل ابیب کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ممکن ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شام کی نئی قیادت نے اپنے ماضی کے پرتشدد تاثر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے خود کو اعتدال پسند انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

بین الاقوامی تحقیقاتی اور تجزیاتی ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے امریکی پروگرام ڈائریکٹر مائیکل ہنا کے مطابق: ’احمد الشرع کا وائٹ ہاؤس کا دورہ شام کے نئے رہنما کے لیے ایک علامتی لمحہ ہے جو ایک جہادی رہنما سے عالمی سیاست دان میں تبدیل ہونے کے سفر کی ایک اور نمایاں پیش رفت ہے۔‘

الشرع توقع رکھتے ہیں کہ وہ شام کی تعمیر نو کے لیے امریکی مالی امداد حاصل کر سکیں گے کیونکہ ملک 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد شدید تباہی کا شکار ہے۔

واشنگٹن پہنچنے کے بعد شامی صدر نے اتوار کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا سے ممکنہ امداد کے حوالے سے ملاقات کی بھی تھی۔

شامی صدر نے واشنگٹن کے حریف ممالک سے بھی سفارتی روابط بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اکتوبر میں روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا