سائنس دانوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ایلون مسک کے سٹار لنک کے سیٹلائٹس زمین کے مدار میں بڑا مسئلہ پیدا کر رہے ہیں اور اس سے دور کے سیاروں اور ستاروں کا مشاہدہ کرنے کی ماہرین فلکیات کی صلاحیت تباہ ہو رہی ہے۔
یورپی لو فریکوئنسی آرے ریڈیو ٹیلی سکوپ نیٹ ورک یا لوفار نے 2012 سے پوری کائنات میں کم روشنی والی اور دور دراز اجسام کا جائزہ لیا ہے تاکہ بلیک ہولز کی دریافت اور بیرونی سیاروں کی تلاش میں مدد مل سکے۔
لیکن جب سے مسک کی نجی کمپنی سپیس ایکس نے اپنے سٹار لنک سیٹلائٹ لانچ کرنا شروع کیے ہیں، پانچ سالوں میں ریڈیو لہروں کے اخراج میں اضافے نے لوفار کے لیے مشاہدات کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔
نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ فار ریڈیو ایسٹرونومی کی سائنسی اور جنرل ڈائریکٹر جیسیکا ڈیمپسی نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ کو بتایا ’ان سگنلز کو ٹریک کرنے سے ہم پہلے بنائے گئے سٹارلنک سیٹلائٹس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جو زمین کے اوپر مدار میں گھوم رہے تھے۔‘
مدار میں سپیس ایکس کے اس وقت چھ ہزار سے زیادہ سیٹلائٹ موجود ہیں، جو زمین پر تقریباً پر جگہ تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کرتے ہیں۔
سٹار لنک سیٹلائٹ غیر ارادی طور پر برقی مقناطیسی تابکاری خارج کر رہے ہیں، جس کے بارے میں لوفار کے ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ خراب بیٹریوں سے ہے۔
ڈیمپسی نے کہا کہ انہوں نے گذشتہ سال سپیس ایکس کے ساتھ کم کرنے کی تکنیک کے بارے میں بات کی تھی اور پرامید محسوس کیا کہ اس مسئلے کو حل کیا جا رہا ہے۔
ڈیمپسی نے کہا کہ انہوں نے گذشتہ سال سپیس ایکس کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کی تکنیکوں پر بات کی تھی اور انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔
لیکن جب ماہرین فلکیات جولائی میں مشاہدات کرنے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ سپیس ایکس کے نئے سٹار لنک وی ٹو منی سیٹلائٹس اس سے بھی زیادہ رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے بعد سے سپیس ایکس نے مزید سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں۔
’ان نئے سیٹلائٹس کے اس مخصوص فریکوئنسی بینڈ کی روشنی، جس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں، اس سے تقریباً ایک کروڑ گنا زیادہ روشن ہے۔
’اس کی مثال یوں ہے کہ آپ ایک تاریک رات میں اپنی آنکھوں سے نظر آنے والے ایک خوبصورت، مدھم ستارے کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں اور پھر ایک مکمل چاند اس کے قریب طلوع ہو جائے۔‘
سپیس ایکس نے دی انڈیپینڈنٹ کی طرف سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیمپسی نے کہا کہ سب سے بری بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف بڑھ ہی رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ’وہ ہر ہفتے 40 ایسے ’مکمل چاند‘ لانچ کر رہے ہیں۔ اس وقت تقریباً چھ ہزار سٹارلنک سیٹلائٹس وہاں موجود ہیں، لیکن مستقبل میں ایک لاکھ کا ارادہ ہے۔
’تو سوچیں، وہاں ایک لاکھ مکمل چاند ہوں گے۔ پھر ہم واقعی زمین سے کیے جانے والے کسی بھی قسم کیےعلم نجوم کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔‘
ڈیمپسی اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں جرنل ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس میں نتائج شائع کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سٹار لنک کے تقریباً تمام سیٹلائٹس برقی مقناطیسی تابکاری خارج کر رہے تھے جو مشاہدات میں مداخلت کرسکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ فلکیات کے گروپ کا مقصد یہ نہیں کہ کمپنیاں سیٹلائٹ ختم کر دیں بلکہ یہ ہے کہ وہ قواعد کے مطابق کام کریں تاکہ یہ اپنے سائنسی مشاہدات کو جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے کہا ’اقوام متحدہ کے پاس فریکوئنسیوں کے محفوظ بینڈز پر ضوابط ہیں۔ اور، یہ محفوظ بینڈز اس لیے موجود ہیں تاکہ فلکیات اپنا کام کر سکے۔
’لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ان پابندیوں کو وہ لوگ بھی مان رہے ہیں جن کے پاس ان قواعد و ضوابط کو لاگو کرنے کی صلاحیت ہے۔‘
© The Independent