کسی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتفاقاً اگر کسی شخص سے ملاقات ہوجائے جس نے پاؤڈر بلیو شرٹ (نیلی قمیص میں وہ بات نہیں) کے ساتھ سیاہ سوٹ زیب تن کیا ہو، سُرخ ٹائی لگائی ہو، مہنگے جوتے پہنے ہوں اور ہاتھ میں بیگ پکڑا ہو تو لامحالہ آپ سمجھیں گے کہ یہ بندہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں بڑے عہدے پر فائز ہے۔
اس قسم کے لوگ عموماً کمپنی کے خرچے پر بزنس کلاس میں سفر کرتے ہیں اور ایسے فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں جہاں ابلا ہوا انڈا 50 یورو میں ملتا ہے۔
عام لوگ انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش انہوں نے بھی ایف ایس سی میں اچھے نمبر حاصل کر لیے ہوتے تو آج وہ بھی ایمازون، مائیکرو سافٹ، ایکس، آئی فون یا ٹیسلا میں گلچھڑے اڑا رہے ہوتے۔ مجھے سلیکون ویلی میں گوگل اور ایپل کا دفتر دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
ان جگہوں کو دیکھ کر واقعی ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ اگر آپ یہاں فِٹ ہوجائیں تو پھر راوی چین ہی چین لکھے گا اور زندگی میں کوئی ٹینشن باقی نہیں رہے گی۔
ذرا اس کارپوریٹ زندگی کا تصور کریں کہ آپ کا سان فرانسسکو میں اپارٹمنٹ ہے، جس کی اٹھائیسویں منزل سے پورا شہر نظر آتا ہے۔
آپ صبح صبح اٹھتے ہیں اور سامنے پارک میں جاگنگ کے لیے نکل جاتے ہیں، وہاں آتے جاتے ٹام، ڈِک، ہیری اور سارہ کو مسکرا کر ہاتھ ہلاتے ہیں، فلیٹ میں واپس آکر شاور لیتے ہیں اور اس سے نکلتے ہوئے پانی کی رفتار ایسی ہے، جیسے بندہ کسی جھرنے کے نیچے کھڑا ہوکر نہا رہا ہو۔
اس کے بعد ہاتھ میں کافی کا مگ اور بغل میں فنانشل ٹائمز کی کاپی دبا کر (خواہ مخواہ) تیز تیز چلتے ہوئے اپنی بی ایم ڈبلیو میں بیٹھ کر دفتر جاتے ہیں۔
دفتر میں ایک آدھ میٹنگ بھگتا کر اور دو چار ای میلز کرکے لنچ کے لیے شہر کے اس کلب میں جاتے ہیں جہاں صرف امرا اور اشرافیہ کو ہی رکنیت مل سکتی ہے۔
باقی کا دن بھی اسی طرح عیاشی میں گزار کر اپنے اپارٹمنٹ واپس آتے ہیں اور کچھ دیر آرام کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ گالف یا حسب توفیق کوئی دوسرا شغل کرکے سو جاتے ہیں۔
ہمیں چونکہ یہ طرز زندگی نصیب نہیں ہوا، سو لازم ہے کہ اس میں کیڑے نکالے جائیں۔
سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی ملازمتیں محفوظ نہیں ہوتیں یعنی آج ہیں کل نہیں، جس دن آپ کی کارکردگی کا معیار ذرا سا بھی نیچے گرا، اس دن آپ فارغ۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ اعلیٰ عہدوں پر اس طرح نہیں ہوتا اور کمپنی اپنے افسران کے ساتھ نسبتاً بہتر سلوک کرتی ہے۔
میرا بھی یہی خیال تھا لیکن کل ہی میری نظروں سے وہ ای میلز گزریں جو بڑی کمپنیوں کے مالکان نے اپنے ملازمین کو بھیجیں۔ نہ جانے کس ستم ظریف نے یہ ای میلز کہاں سے اچک لیں (بولے تو ہیک کرلیں)، انہیں پڑھ کر احساس ہوا کہ سٹیو جابز ہو یا ایلون مسک، آخری تجزیے میں یہ سب سیٹھ ہی ہیں۔
ایلون مسک کی یہ ای میل ملاحظہ ہو جو موصوف نے نو اپریل 2022 کو ایکس (سابق ٹوئٹر) کے سی ای او پراگ اگروال کو بھیجی: ’آپ کو یہ ٹویٹ کرنے کی آزادی ہے کہ ’کیا ٹوئٹر مر رہا ہے؟‘ یا ٹوئٹر کے بارے میں کچھ بھی اور لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ آپ کو بتاؤں کہ موجودہ حالات میں ٹوئٹر کو بہتر بنانے میں اس سے میری مدد نہیں ہو رہی۔
‘اگلی مرتبہ جب ہم ملیں تو میں چاہوں گا کہ آپ مجھے کمپنی میں موجودہ اضطراب کی کیفیت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بتائیں کہ یہ ہمارے کام کرنے کی صلاحیت کو کیسے متاثر کر رہی ہے۔۔۔ میں کمپنی کو ایک ایسے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں جہاں یہ زیادہ مستحکم اور اپنے اہداف کے حصول میں یکسو دکھائی دے، لیکن ہم ابھی اس جگہ پر نہیں ہیں ۔۔۔ ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے اس ہفتے کیا ہدف حاصل کیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ای میل کے چند ماہ بعد مسک نے اگروال کو ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔ سو، ایک بات تو یہ طے ہوئی کہ سی ای او کو بھی ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا، یہ عیاشی اپنے ہاں صرف سرکاری ملازمین کو میسر ہے۔
مسک کی ایک اور ای میل دیکھیں جو اس نے ٹیسلا میں کام کرنے والوں کو بھیجی: ’جو ملازمین بھی ٹیلی ورک کرنا چاہتے ہیں انہیں دفتر میں کم از کم 40 گھنٹے کام کرنا ہوگا (اور میرا مطلب کم سے کم 40 گھنٹے ہے) اور اگر کوئی یہ نہیں کر سکتا تو بے شک وہ ٹیسلا چھوڑ دے۔‘
مزید لکھا گیا: ’یاد رہے کہ یہ فیکٹری ملازمین کے کام کرنے کے اوقات سے کم ہے۔ جو ملازم ایک ہفتے میں 40 گھنٹے سے کم دفتر میں رکے گا، ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘
ایلون مسک کے نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو کہا جائے گا کہ ’غریب کا بال‘ ٹھیک ہی تو تڑپ رہا ہے، آخر ٹوئٹر اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں چلانا کوئی خالہ جی کا گھر تو نہیں، اگر وہ نرم پڑ گیا تو یہ ملازمین کام کرنے کی بجائے اس کے سر چڑھ جائیں گے، اس لیے دل سخت کر کے یہ پالیسیاں بنانی پڑتی ہیں۔
دوسری جانب ایمازون کے مالک جیف بیزوس بھی اس قسم کی ای میلز بھیجنے میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔
جب کبھی ایمازون کے کسی ملازم کی کارکردگی کا معیار گرتا ہے تو وہ فقط سوالیہ نشان لکھ کر بھیج دیتے ہیں، سنا ہے کہ تین سوالیہ نشانوں کے بعد بندے کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔
سو، آج کے بعد اگر آپ کوکسی بڑی کمپنی کا عہدے دار ملے تو اس سے متاثر ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، ہماری طرح یہ بیچارے بھی حکم کے غلام ہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کے سیٹھ کا نام ایلون مسک اور جیف بیزوس ہے، جمشید بھائی باٹلی والا نہیں ہے!
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔