چندریان کی چاند یاترا: انڈیا کو کیا فائدہ ہو گا؟

چندریان مشن کی کامیابی کے ساتھ ہی انڈیا عالمی سٹیج پر خود کو ایک ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر منوانے میں کامیاب ہو گیا ہے، مگر اس کے معاشی اور سفارتی فوائد بھی ہیں۔

22 اگست 2023 کو ممبئی میں سکول کے بچے چندریان مشن کے کامیابی سے چاند کے مدار تک پہنچنے کی خوشی منا رہے ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ روز انڈیا چاند پر خلائی مشن اتارنے والا دنیا کا چوتھا اور جنوبی قطب پر پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انڈین ٹیکنالوجی کے لیے بہت بڑی پیش رفت ہے، لیکن اس کے علاوہ اس لینڈنگ کی علامتی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔

اس لینڈنگ کے ساتھ ہی انڈیا عالمی سٹیج پر خود کو ایک ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر منوانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا پر یہ خبر شہ سرخی کے ساتھ چلائی جا رہی ہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا کے سافٹ امیج کو بہت زیادہ تقویت ملی ہے، اور اب اسے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک کی حیثیت سے نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کھلاڑی کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا ہے۔

انڈیا پہلے ہی مریخ پر منگل یان نامی خلائی جہاز بھیج چکا ہے، جو 2014 سے مریخ کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔

کم خرچ بالا نشین

چندریان 3 مشن کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انڈیا نے یہ کام صرف 7.5 کروڑ ڈالر میں انجام دیا ہے، جب کہ اس کے مقابلے پر دوسرے ملکوں کے اسی قسم کے پروگرام کئی گنا زیادہ مہنگے رہے ہیں۔ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ بہت وائرل ہوئی ہے جس پر ایلون مسک نے بھی تبصرہ کیا۔ اس پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلم ’انٹرسٹیلر‘ پر 16.5 کروڑ ڈالر خرچ آیا تھا جب کہ انڈیا اس سے کہیں کم لاگت میں چاند پر مشن اتارنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

ناسا کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق 1958 سے لے کر آج تک چاند پر 70 مشن بھیجے جا چکے ہیں، جن میں سے آدھے سے زیادہ، یعنی 41 ناکام رہے۔ 

پہلے 42 سال تک چاند کے مشنز پر صرف امریکہ اور روس کی اجارہ داری رہی، مگر پھر 1990 میں جاپان نے ’ہتن‘ نامی مشن بھیج کر اس فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا۔ 

اس کے بعد یورپی یونین نے بھی چاند پر مشن بھیجے۔ انڈیا کا ایک اور مشن، چندریان 2 2019 میں بھیجا گیا تھا مگر وہ ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ 

 

ابھی تین روز پہلے 21 اگست کو چین کا لونا 25 خلائی جہاز بےقابو ہو کر چاند کی سطح سے ٹکرایا اور تباہ ہو گیا۔ روسی اخبار rtvi.com  کے مطابق اس مشن پر ساڑھے 13 کروڑ ڈالر خرچ آیا تھا۔

اسی طرح امریکہ کے چاند کے مشنز بھی انڈیا کے مقابلے پر بہت مہنگے ہیں۔ ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے چاند پر انسان اتارنے کے مشن آرٹیمس کی کل لاگت 93 ارب ڈالر ہے۔ البتہ یہ مشن چندریان کے مقابلے پر کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیوں کہ اس میں انسانوں کو چاند پر اتارنا شامل ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پہلے ہی سے انڈیا کی پرائیویٹ خلائی صنعت کی تشہیر شروع کر دی ہے اور دنیا بھر کو اس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اس ترغیب میں بنیادی کشش یہ ہے کہ انڈیا کے خلائی پروگرام کی لاگت مغربی ملکوں کے مقابلے پر بہت کم ہے جو اس پروگرام کی مارکیٹنگ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مستقبل میں اگر چاند پر کان کنی یا سیاحت شروع ہو جائے، تو انڈیا اس میں اہم پلیئر ثابت ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی ملک ایسے ہیں جو خلائی پروگراموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے پاس سرمایہ بھی ہے، مگر ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ انڈیا انہیں بھی سستی سروسز فراہم کر سکتا ہے۔

چندریان، وکرم اور پرگیان

چندریان مشن کا نام ہے۔ یہ سنسکرت کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے، جس کا مطلب ہے ’چاند گاڑی۔‘ یہ اس سلسلے کا تیسرا مشن ہے، اس سے قبل 2019 میں چندریان 2 مشن ناکام ہو گیا تھا۔

وکرم وہ لینڈر ہے جو چاند کی سطح پر اترا۔ یہ نام انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے بانی وکرم سارابھائی کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرگیان وہ چاند گاڑی ہے جو چاند کی سطح پر چل کر وہاں تجربات و مشاہدات کرے گی۔ پرگیان بھی سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے عقل و دانش۔

انڈیا کو کیا فائدہ ہو گا؟

اسرو کی ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:

  1. لینڈر کو چاند کی سطح پر محفوظ اور نرمی سے اترنا۔
  2. چاند پر چاند گاڑی کی ڈرائیونگ کی صلاحیتوں کا مشاہدہ اور مظاہرہ کرنا۔
  3. چاند کی ساخت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چاند کی سطح پر دستیاب مواد پر تجربات کرنا اور مشاہدہ کرنا۔

یہ مقاصد اپنی جگہ مگر اس لینڈنگ کے نتائج کہیں زیادہ دور رس ہوں گے۔ 

اخبار فارن پالیسی نے لکھا ہے کہ یہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی واضح سیاسی جیت ہے اور اس سے انڈیا کو سلامتی کونسل اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بننے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔

اخبار کے مطابق اس کے علاوہ مزید فائدہ یہ ہو گا کہ انڈیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا، خاص طور پر کمیونیکیشن اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجیز کے شعبے میں۔

انڈیا کے خلائی تحقیق نے زیرِ زمین پانی کی سطح جاننے اور موسمیاتی پیٹرن معلوم کرنے میں مدد دی ہے۔ چونکہ انڈیا ماحولیاتی تپش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے اس لیے اسے یقیناً اس سے فائدہ پہنچے گا۔

مزید یہ کہ انڈین حکومت کی خلائی کامیابیوں سے نجی سیکٹر کو تحریک ملے گی اور وہ بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے۔ امریکہ میں پہلے ہی نجی شعبہ بڑے پیمانے پر خلائی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ایلون مسک کی سپیس ایکس اور ایمازون کے مالک جیف بیزوس کی بلو اوریجن کمپنیاں اس شعبے میں اربوں ڈالر کی فنڈنگ کر چکی ہیں اور مستقبل میں اس میں اضافہ ہونے والا ہے۔

مثال کے طور پر عرب امارات 2024 میں چاند پر اپنا روور اتارنے کا منصوبہ رکھتی ہے، مگر ان کے پاس اسے چاند تک پہنچانے کا بندوبست نہیں ہے اور انہوں نے جاپانی خلائی کمپنی آئی سپیس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔

انڈیا میں سستی لیبر اور کم قیمت ٹیکنالوجی کی وجہ سے کم خرچ خلائی کمپنیاں قائم ہو سکتی ہیں جو دوسری کمپنیوں کو ٹکر کا مقابلہ دے سکتی ہیں۔

چاند پر آباد کاری

امریکہ اور چین دونوں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ چین پر انسان کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چندریان 3 مشن چاند کے جنوبی قطب پر اترا ہے جہاں برف موجود ہے۔ اگر انسان کو چاند پر مستقل بستی بنانی ہے تو اسے لازمی کسی ایسے حصے کا انتخاب کرنا ہو گا جہاں پانی وافر ہو جو نہ صرف پینے کے کام آئے گا بلکہ اس سے آکسیجن بھی بنائی جا سکتی ہے۔

چاند زمین سے تین لاکھ 84 ہزار کلومیٹر دور ہے، جو کائناتی فاصلوں کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے پر مریخ زمین سے اوسطاً 14 کروڑ کلومیٹر ہے، یعنی چاند کے مقابلے پر 364 گنا دور۔ جب کہ سیارہ زحل سوا ارب کلومیٹر سے زیادہ دوری پر واقع ہے۔ اگر ان سیاروں تک انسان نے کبھی پہنچنا ہے تو چاند کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ماؤنٹ ایورسٹ یا کے ٹو تک جانے کے لیے کوہ پیما بیس کیمپ پر کچھ وقت گزار کر اپنے جسم کو موسم اور بلندی کا عادی بناتے ہیں۔

  چاند پر رہنے سے ایک تو خلابازوں کی تربیت ہو گی کہ دوسرے سیاروں پر طویل مدت قیام کیسے کیا جائے اور اس دوران کیا تکنیکی اور حیاتیاتی مسائل پیش آ سکتے ہیں، دوسرا یہ کہ چاند کے وسائل استعمال کر کے وہاں ایندھن تیار کیا جا سکتا ہے اور خلائی جہازوں کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ 

چونکہ چاند کی کششِ ثقل زمین سے چھ گنا کم ہے، اس لیے وہاں سے راکٹ اڑانے کا خرچ بھی زمین کے مقابلے پر بہت کم ہو گا، اس لیے چاند بیس کیمپ کا کردار کامیابی سے ادا کر سکتا ہے۔

ناسا نے کہہ رکھا ہے کہ اس کا آرٹیمس مشن صرف چاند تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسے وہ مریخ کی مہم جوئی کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ہیلیئم 3

انڈین اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ اسرو چاند پر ہیلیئم 3 کی کھوج لگائے گا۔

ہیلیئم 3 ایک آئسوٹوپ ہے جو زمین پر تو بہت کم پایا جاتا ہے مگر چاند پر اس کی مقدار خاصی زیادہ ہے۔ زمین پر جو ہیلیئم عام ہے اس میں دو پروٹان اور دو ہی نیوٹران ہوتے ہیں، مگر ہیلیئم 3 میں دو پروٹان کے علاوہ صرف ایک نیوٹران ہوتا ہے۔ 

اس کی اہمیت یہ ہے کہ اسے ایٹمی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور ایک اندازے کے مطابق یہ اگلے ڈھائی سو برس تک زمین پر توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سربراہ کے سیون کا بیان نقل کیا ہے کہ ’جن ملکوں کے پاس ان ذخائر کو چاند سے زمین پر لانے کی صلاحیت ہو گی، وہ اس عمل کی قیادت کریں گے۔ میں ان کا حصہ بننا نہیں، بلکہ ان کی قیادت کرنا چاہتا ہوں۔‘

تاہم یہ عمل اتنا آسان نہیں ہے۔ چاند پر خلائی جہاز اتارنا اور وہاں سے چند کلو پتھر یا مٹی اٹھا کر زمین پر لانا اور بات ہے  اور بڑے پیمانے پر کان کنی بالکل الگ چیز ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مہنگا اور مشکل عمل ہے۔ دوسرے یہ کہ ہیلیئم 3 کو زمین پر لایا بھی جا سکے تو اس سے توانائی بنانا آسان نہیں۔ دا وائر میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی فی الحال دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس