سرعام اور نقاب میں جلوے بکھیرنے والے

سچ، ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترامِ انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نیکوکار وں کوان بلاؤں سے واسطہ بھی نہیں مگر ہم دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر بضد بھی ہیں۔

ملائیشیاکی مضبوط معیشت، خوشحالی، فی کس آمدنی، شرح خواندگی، صفائی، بلند و بانگ عمارتیں، منظم ٹریفک، قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے صحت مند رویے دیکھ کر رشک آتا ہے(اے ایف پی)

تاریخ کہتی ہے کہ یورپ میں ایک انقلاب آیا تھا۔ وہ انقلاب جس کے طفیل آج کی عقل شکن انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے علوم کو سمارٹ فون کے دامن میں سمو دیا ہے۔

تاریخ کا فیصلہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عروج پانے والی پاپائیت کا اختتام اس علمی اور صنعتی انقلاب کا آغاز تھا، جس کا ثمر ہے کہ آج سچ، ایمان داری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترامِ انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نیکوکاروں کو ان بلاؤں سے واسطہ بھی نہیں مگر ہم دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر بضد بھی ہیں۔ خوش فہمی یہ ہے کہ کشمیر و فلسطین تو کیا، سارا جہاں ہمارا۔

ہم شیخ چلی بھی کیاعجیب الفطرت واقع ہوئے ہیں۔ ہماری خواہشات بھی بےمثال ہیں، ترجیحات بھی لاجواب۔ خوابوں کا بھی جواب نہیں، آرزوئیں بھی لاثانی۔ شوق بھی عجب ہیں، مہمات بھی منفرد، خوشیاں بھی جدا ہیں، غم بھی الگ، رویوں کا بھی مول نہیں، اطوار کا بھی کیا کہنا۔

ہر بندہ مقدور بھر بددیانت ہے مگر دوسروں سے دیانت داری کی توقع رکھتا ہے۔ ذخیرہ اندوز سے جب سرکاری دفتر میں رشوت طلب کی جاتی ہے تو وہ تاسف سے کہتا ہے ’آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟‘

رشوت خور کو اگر کوئی ذمہ دار پکڑتا ہے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے ایک جانور کا نام لے کر کہتا ہے کہ وہ چَک پا گیا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب کوئی اپنی گاڑی رواں ٹریفک میں گھسیڑ کر اسے بلاک کر دیتا ہے تو غصے سے کہتا ہے ’ان لوگوں میں ڈرائیونگ کا سینس ہی نہیں!‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسروں کے لائن توڑنے پر مرنے مارنے پر تُل جانے والا خود یہ حرکت کرے تو فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے ’یہ پاکستان ہے، یہاں سب جائز ہے!‘

رات کو چوری کے لیے جانے والا ساتھیوں کو اپنی ناکامی کا فسانہ یوں سناتا ہے ’وہ بےایمان جاگ رہے تھے۔‘

جنسی زیادتی کے ملزم کے سرپرست جب مظلوم کے گھر راضی نامے کے لیے جاتے ہیں تو واپسی پر بتاتے ہیں ’بے غیرت مان ہی نہیں رہے۔‘

ڈاکو اپنی ناکامی کا ذمہ دار شکار کو ٹھہراتا ہے کہ ’اُلو کے پٹھے نے مزاحمت کر دی۔‘ جس نے اپنی جڑوں کی سیرابی کرپشن سے کی ہوتی ہے، وہ سینہ تان کر کہتا ہے ’کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘

آمروں کے دسترخوان کی ہڈیاں چوسنے والے خم ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں ’جمہوریت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دیں گے۔‘

بنیادی حقوق کی سرکوبی پر مبنی منشور رکھنے والے جن پارساؤں کو عوام اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے، وہ صدقِ دل سے سمجھتے ہیں یہ لوگ جاہل، گھامڑ اور لدھڑ ہیں۔           

کیا پارہ صفت قوم ہے کہ بیک وقت شوقِ جمہوریت بھی پال رکھا ہے مگر نظریاتی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں۔ عوام کو اختیارات کا منبع کہتے ہیں مگر ان کا فیصلہ بھی قبول نہیں۔ میڈیا کی آزادی کے قائل ہیں مگر آزادیِ اظہار کا سلیقہ بھی نہیں۔ تنقید کو اپنا حق خیال کرتے ہیں مگر تنقید کا قرینہ بھی نہیں۔

رواداری، برداشت، توازن اور وسیع القلبی کے لچھے دار خطبے عروج پر ہیں مگر بغل میں دبی بغض کی پوٹلیاں پھینکنی بھی نہیں۔ عوامی حکمرانی کے تصور کے شیدائی منتخب نمائندوں کو نشانے پر رکھنے والے اصحاب کو جمہوریت کے سر کی چادرنوچنے والے کہتے ہیں تواینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے دورِ آمریت میں خوشامدوں کے نوشتے لکھنے والے جمہوریت کے قصیدہ خوانوں کو درباری قلم کار گردانتے ہیں۔

سیاست کے شاہ سواروں کا بھی جواب نہیں۔ اگر اہل مذہب کافر گری میں اپنی مثال آپ ہیں تو اہل سیاست بھی غدارگری میں ثانی نہیں رکھتے۔ مقصدیت اور معقولیت سے عاری شیریں کلامی دیکھیے ’دائرہ اسلام سے خارج ہے،‘ ’فلاں اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے،‘ ’سڑکوں پر گھسیٹیں گے،‘ ’دشمن کا ایجنٹ ہے،‘ ’ملک و قوم کا غدار ہے۔‘

قلم اور گفتار کے ہتھیاروں سے لڑی جانے والی یہ جنگ ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ عام آدمی بھی حسب توفیق چوپالوں اور تھڑوں میں اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

گویا ہم مذہبی اورنظریاتی اختلافات کو ایک دوسرے کی نیتوں پر شبے کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں، جس سے مخالفین کا ایمان اور حب الوطنی مشکوک قرار پاتے ہیں اور وہ کافر، غدار اور ملک دشمنوں کی صف میں آ کھڑے ہوتے ہیں۔

منطق کے منہ میں گالی او ر دلیل کے ہاتھ میں جوتا دے کر لڑی جانے والی اس لاحاصل جنگ میں جب ہمارے اصل مسائل کہیں دور رہ جاتے ہیں تو دنیا اس 72 سالہ ملک کو نابالغ لوگوں کا وطن کہتی ہے۔

حال ہی میں ملائیشیا میں مقیم بھارتی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر وہاں کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی مالے قوم کے خلاف ابھارنے کا الزام لگا تومعاشرے میں بے چینی کی لہردوڑ گئی۔ ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور ذاکر نائیک کو ملائیشیا کے کثیر الثقافتی معاشرے میں قومیت کے حوالے سے حساس بیان دینے پرمعافی مانگنی پڑی ہے۔

ملائیشیا وہ ملک ہے، جس کے اکابرین نے پاپائیت کو انجام تک پہنچانے والے یورپی انقلاب کے اصولوں سے رہنمائی حاصل کر کے ایک وسیع النظر سماج تشکیل دیا ہے۔ ہم نے چند روز ملائیشیا میں رہ کر ان کے ’طریقۂ واردات‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔

ان کی مضبوط معیشت، خوشحالی، فی کس آمدنی، شرح خواندگی، صفائی، بلند و بانگ عمارتیں، منظم ٹریفک، قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے صحت مند رویے دیکھ کر رشک آتا ہے۔

زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پورے جوبن پر ہے۔ پُر شکوہ مساجد بھی ہیں اور کلچرل سینٹر بھی۔ روحانی محافل بھی ہیں اور نائٹ کلب بھی۔ واعظ و تبلیغ بھی ہے اور تفریح کے ذرائع بھی۔ کسی بھی طرح کی کوئی قدغن نہیں، جو جہاں چاہے آزادی سے جا سکتا ہے۔ کلب جانے والے کو نمازی پر اعتراض ہے، نہ اہل مدرسہ کو ثقافتی مراکز کی سرگرمیوں پر۔ شیخ جی بھی معتبر شہری ہیں اور رِند بھی۔

اگر کوئی معتوب ہے تو فقط قانون کی خلاف ورزی پر۔ مذہبی رحجان کی حامل خواتین پردے میں مصروفِ عمل ہیں اور بہت سی مغربی تہذیب میں آسودگی محسوس کرتی ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی کی اخلاقیات کو متلی ہوتی ہے نہ کسی کی حب الوطنی یا ایمان خطرے میں پڑتا ہے۔ کہیں کوئی تہذیبی تصادم ہے، نہ فرقہ وارانہ فساد۔

مذہبی اقدار سے انتہا پسندی وجود میں آئی ہے، نہ لبرل ازم سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں۔ علما وعظ و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو بھلائی کی طرف راغب کرتے ہیں مگر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا کسی کو اختیارنہیں۔ اپنی تمام تر ’خرافات ‘کے باوجود ان لوگوں کا ایمان بہرحال ہم سے مضبوط ہے کہ کسی کو اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ درکار ہے، نہ بات بہ بات تجدید نکاح کی ضرورت۔

کثیر الثقافتی معاشرہ تو خیر ہم بھی رکھتے ہیں مگرپاک سرزمین کے تقاضے دنیا بھر سے مختلف ہیں۔ ہم نے لبرل ازم اور سیکولر ازم جیسی معتبر اصطلاحات کو گالی سے تعبیر کر رکھا ہے۔ ہمارے نظریات سیاسی ہوں یا مذہبی، دلیل کی بجائے تلوار اور مکالمے کی جگہ دشنام طرازی ہمارے موثر ہتھیار ہیں۔

یورپ کا انقلاب سرعام اپنی رعنائیاں دکھا رہا ہے جبکہ نقاب پوش پرہیزگار کشکول ہاتھ میں لیے اس خوش فہمی میں جلوے بکھیر رہے ہیں کہ ’چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا‘ (رہنے کو گھر نہیں ہے،وطن ہے سارا جہاں ہمارا)

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ