بلوچستان کا پہلا مرد کلاسیکل رقاص

احمد بلوچ کے مطابق یہ سفر انتہائی کھٹن رہا کیونکہ یہ ایک ایسا پیشہ تھا جسے بلوچستان میں نہ صرف ناپسند کیا جاتا ہے بلکہ اس پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔

اعضا کی شاعری یعنی رقص کا بلوچ معاشرے میں بھی رواج ہے، شادیوں میں ڈھول کی تھاپ پر مرد اور عورتیں باقاعدہ رقص کرتی ہیں اور رقص کی ایک قسم کو چھاپ بھی کہا جاتا ہے جس میں چند مرد اور عورتیں ایک طریقہ کار کے تحت رقص کرتے ہیں جو بہت مقبول بھی ہے۔

احمد بلوچ یوں تو ایک عام نوجوان ہیں مگر وہ دوسروں سے اس وجہ سے منفرد ہیں کہ وہ رقص تو کرتے ہیں جو بلوچ معاشرے میں مروج ہے لیکن انہوں نے رقص گھونگھرو باندھ کر کرنے کا انتخاب کیا ہے جسے یہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ آرٹ شاید ان کے ساتھ ہی وجود میں آیا ہے۔ بچپن میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے لوگوں کو دیکھ کر احمد خوش ہوتے اور ان کا جسم بھی تھرکنے لگتا۔ وہ بھی ان کے ساتھ رقص کرتے جبکہ اکیلے میں قدرت سے قربت کے باعث وہ درختوں اور پہاڑوں کو بھی اپنے ساتھ رقص کرتا محسوس کرتے تھے۔

احمد بلوچ کا تعلق تو بلوچستان کے سب سے پسماندہ اور شورش سے متاثرہ علاقے آواران کے ایک دیہات تیرتیج سے ہے جو اس دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ ان کے علاقے میں تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔

احمد کے مطابق یہ سفر انتہائی کٹھن رہا کیونکہ یہ ایک ایسا پیشہ تھا جسے بلوچستان میں نہ صرف ناپسند کیا جاتا ہے بلکہ اس پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔

ان کو بھی لوگوں کی شدید تنقید کا سامنا ہے بعض اوقات اس تنقید سے انہیں شدید ذہنی اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر انہوں نے آج تک کسی تنقید کرنے والے کو جواب نہیں دیا۔

بلوچستان کے اکثر علاقوں میں آج بھی لوگوں کے تفریح کا ذریعہ ریڈیو ہے۔ احمد بلوچ کہتے ہیں کہ جب وہ بچپن میں ریڈیو سنتے تھے تو بھارتی گانے ’اس ریشمی پازیب کے جھنکار کے صدقے‘ انہیں بہت پسند آتا تھا اور وہ جب بارش ہوتی ہے اور پانی آتا تو گھنٹوں اکیلے رقص کرتے تھے۔ کبھی بکریاں چرانے جب پہاڑوں میں نکلتے تو وہاں بھی یہ شوق پورا کرے تھے۔ وہ چونکہ قدرت سے قریب تھا اس لیے اسے محسوس ہوتا کہ پرندے، درخت اور پہاڑ بھی اس کے ساتھ و رقص کر رہے ہیں۔

احمد کے مطابق ان کے اندر کوئی چیز تھی جو انہیں تھرکنے اور رقص کرنے پر مجبور کیا۔

شروع میں انہوں نے چوگان میں بھی رقص کیا اور اس دوران انہیں روحانی سکون ملتا تھا۔ چوگان ذکری مذہب کے پیروکار کی خاص عبادت ہے جس میں کچھ لوگ ایک دائرے میں کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں اور اشعار کے بول کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور دائرے میں گھومتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا خصوصی بلوچی رقص ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمد کے مطابق: ’انٹر کے بعد فائن آرٹس کا شعبہ چنا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ مجھے آرٹسٹ بننا ہے یا کچھ اور لیکن کوئی چیز تھی جو مجھے اس طرف مائل کرتی رہی۔‘

بچپن میں وہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رہتے تھے اور اکثر اوقات گھر میں رہتے اپنی والدہ کا کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے۔

احمد کے بقول: ’مجھے بچپن سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں دوسرے بچوں سے الگ ہوں اور کوئی چی زہے جو مجھے دوسروں سے دور رکھتی ہے جس کا احساس آج بھی ہوتا ہے۔‘

احمد نے ابتدائی تعلیم تو اپنے علاقے سے حاصل کی پھر بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر کے مہران یونیورسٹی سے ایکسی لینس آرٹ میں گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دی، لیکن داخلہ نہ ہوسکا جس سے نہ صرف احمد کا دل ٹوٹ گیا بلکہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ واپس آواران جائیں گے لیکن واپس جانے سے پہلے این سی اے (نیشنل کالج آف آرٹس) میں داخلہ ہوگیا اور اب وہ وژول آرٹ میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ 

احمد کے بقول جب وہ رقص کرتے تھے تو اس دوران بھی لوگ انہیں اچھا نہیں سجھتے تھے اور ایک بار جب انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو ویڈیو وائرل ہونے پر لوگوں  نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور برا بھلا کہا۔

بہت متاثر کرنے والا واقعہ  

احمد کے مطابق: ’کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران جب میں نے رقص کیا تو اس میں مجھے تیسرا انعام دیا گیا۔ جب ججز نے کامیاب فن کاروں کا اعلان کیا تو ایک ہزارہ خاتون نے اٹھ کر ججز سے کہا کہ ’آپ کیسے فیصلہ دے رہے ہیں، جس نے صرف آئٹم نمبر کیا اسے پہلی پوزیشن دی جس نے کلاسیکل رقص کیا اسے آپ نے تیسرے پوزیشن دی ہے۔‘ اس واقعہ نے مجھے تقویت دی کہ ایک غیر خاتون میرے لیے آواز بلند کرسکتی ہے تو میں خود کیوں کچھ نہیں کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘

احمد بلوچ کہتے ہیں کہ وہ پرفارمنس آرٹسٹ، پرفارمنگ آرٹسٹ، ویژول آرٹسٹ اور کلاسیکل ڈانسر ہیں اور وہ مصوری بھی کرتے ہیں، جن میں ان کا موضوع امن اور رقص، قدرت ہی رہتے ہیں۔ 

احمد کے مطابق تنقید کے باوجود گھر والوں نے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا۔

ان کا کہنا تھا: ’چچا نے مجھے کہا کہ اس سفر کے دوران تمہیں بہت سے بھونکنے والے کتے ملیں گے اگر تم ان کو پتھر مارنے پر لگ جاؤ گے تو کچھ نہیں کرپاؤ گے۔ ان کو نظر انداز کرتے جاو۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک کسی کے تنقید کا جواب نہیں دیا۔‘

احمد بلوچ نے نہ صرف کوئٹہ، مہران یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، اسلام آباد میں بھی پرفارم کیا ہے بلکہ بیچلر میں ٹاپ پوزیشن لینے پر مہران یونیورسٹی نے بھی انہیں سلور میڈل دیا۔

احمد کے مطابق ان کے گھر والے کٹر مذہبی نہیں اور کچھ حد تک لبرل ہیں۔ ’انہوں نے میرے پیشے کو لے کر کبھی مذہبی بحث نہیں کی، جبکہ میری اہلیہ کو بھی میرے رقص کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’تنقید کے علاوہ مجھے کسی قسم کی مدد حاصل نہیں۔ ایک بار میرے والد کو بازار میں کسی نے کہا کہ احمد تمہارا بیٹا ہے جو ناچتا ہے تو میرے والد نے جواب دیا ہاں ’کیا ہم نہیں ناچتے؟ تم ناچتے ہو ہم سب ناچتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے‘۔ یہ خاندان کی طرف سے میری لیے بہت بڑی مدد ہے۔‘

آواران میں تعلیم کی بہتر سہولیات میسر نہیں جبکہ لڑکیوں کو اس حوالے سے بہت مشکلات ہیں۔

احمد کے مطابق: ’ہمارے لڑکوں کے لیے کالج ہے لیکن کلاسز نہیں ہوتے اور لڑکیوں کے  لیے تو کالج ہی نہیں ہے جبکہ سکولوں میں اساتذہ اور دیگر سہولیات کی کمی ہے جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ ہمارے ہاں لڑکیوں کی جلد شادی کردی جاتی ہے ان کی خواہشیں دل میں رہ جاتی ہیں۔ ’اس لیے میں نے ایک نمائش بھی کی تھی ’سکائے از پنک‘ کے نام سے جس کا مقصد لڑکیوں کے تعلیم پر توجہ دلانا تھا۔‘

گو احمد بلوچ نے ایک کٹھن راہ کا انتخاب کیا ہے اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جار ہا ہے لیکن وہ پرعزم ہیں کہ انہوں نے درست راستہ چنا ہے اور وہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گے، بلکہ ’منزل تو ستاروں سے بھی آگے ہے۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل