پاکستان نے امیر ممالک کو یاد دہانی کروائی ہے کہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ممالک کی مدد کرنا ان کی ’اہم‘ ذمہ داری ہے اور عالمی موسمیاتی پالیسیوں میں ’مساوات اور انصاف‘ ہونا چاہیے۔
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری بیان 2023 میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس سے قبل جاری کیا گیا ہے جسے عام طور پر سی او پی 28 کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی کانفرنس 30 نومبر سے 12 دسمبر تک دبئی میں منعقد ہو رہی ہے۔
گذشتہ سال یہ اجلاس ایسے وقت میں مصر میں کوپ27 کے نام سے منعقد ہوا تھا جب پاکستان میں سیلاب تھا جس میں 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور معیشت کو تین کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔
اس سال کی کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عالمی گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف 0.9 فیصد ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔
گذشتہ سال مصر میں ہونے والے COP27 میں پاکستان کی سربراہی میں ’ناقابل تلافی اور قابل تلافی نقصان‘ فنڈ بنانے کے معاہدے کو ترقی پذیر ممالک کے مذاکرات کاروں کے لیے ایک پیش رفت کے طور پر سراہا گیا تھا۔
لیکن اس سربراہی اجلاس کے بعد سے ممالک کو فنڈ کی تفصیلات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جیسا کہ کون ادائیگی کرے گا اور فنڈ کہاں ہوگا۔
اس فنڈ پر عمل درآمد کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے گذشتہ ماہ کے اوائل میں ابوظبی میں پانچویں بار اجلاس منعقد کیا تھا تاکہ ان سفارشات کو حتمی شکل دی جا سکے جو اگلے ہفتے دبئی میں ہونے والے اجلاس میں حکومتوں کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ ہدف یہ ہے کہ فنڈ کو 2024 تک فعال کر دیا جائے۔
پاکستانی وزارت منصوبہ بندی کے بیان میں کہا گیا کہ ’آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ ایک عالمی جنگ ہے، جس کے لیے تمام ممالک کی مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ امیر ترین ممالک، جو عالمی اخراج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، کی اہم ذمہ داری ہے کہ پاکستان جیسے کمزور ممالک کی مدد کریں۔ اخراج اور اثرات میں عدم مساوات عالمی آب و ہوا کی پالیسیوں میں مساوات اور انصاف کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔‘
وزارت نے ملک کا نیشنل ایڈیپٹیشن پلان (این اے پی) 2023 بھی بنایا ہے جس میں چھ ستونوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، یعنی آبی وسائل کا انتظام، زراعت اور غذائی تحفظ، جنگلات اور حیاتیاتی تنوع، آفات کے وقت انتظام، بنیادی ڈھانچہ اور صحت عامہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آبی وسائل کے انتظام میں پاکستان کا مقصد بدلتے ہوئے موسمیاتی حالات کے پیش نظر آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے آبی وسائل کے پائیدار انتظام اور استعمال پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے لیے زرعی شعبے کی لچک بڑھانے، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور آب و ہوا سے متعلق سمارٹ زرعی طریقوں کو فروغ دینے کا بھی منصوبہ ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ ’ماحولیاتی نظام کی لچک اور کاربن ختم کرنے کی صلاحیتں بڑھانے کے لیے جنگلات اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ اور پائیدار انتظام‘ این اے پی 2023 کا ایک اہم ستون ہے، جیسا کہ سیلاب، ہیٹ ویو اور خشک سالی جیسی آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے تیاری کے میکانزم کو مضبوط بنانا ہے۔
بنیادی ڈھانچے اور تعمیر شدہ ماحول پر توجہ کے تحت NAP 2023 کا تصور ہے کہ ’شہری اور دیہی بستیوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر موسمیاتی خطرات اور اثرات برداشت کرنے کے قابل بنایا جائے۔‘
صحت عامہ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا اور نظام صحت کو آب و ہوا سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل سے نمٹنے کے قابل بنانا بھی اس منصوبے کا ایک اور مرکزی ستون ہے۔
وزارت منصوبہ بندی نے مزید کہا ہے کہ ’ان ستونوں کا مشترکہ مقصد پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات برداشت کرنے کے قابل بنانے کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطہ نظر تیار کرنا ہے۔‘
این اے پی 2023 کے تحت اہم منصوبوں میں بلوچستان انٹیگریٹڈ فلڈ ریکوری اینڈ ریزیلینس پروجیکٹ (آئی ایف آر اے پی) بھی شامل ہے، جس میں عالمی بینک کی جانب سے 21 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، جس کا مقصد سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز کرنا، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور مستقبل کے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے مقامی صلاحیتوں میں بہتری لانا ہے۔
سندھ میں سمندر کی بلند ہوتی سطح اور ساحلی کٹاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمتنے کے لیے کوسٹل ریزیلینس پروجیکٹ ہے جو کہ ’ساحلی ماحولیاتی نظام پر منحصر برادریوں کے ذریعہ معاش کے تحفظ کے لئے انتہائی اہم ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’بڑے پیمانے پر منصوبوں سے لے کر کمیونٹی کی سطح کے اقدامات تک، پائیدار اور لچکدار مستقبل کی جانب سفر ایک اجتماعی سفر ہے۔ اس کاوش میں پاکستان اس بات کا ثبوت ہے کہ موسمیاتی تنوع کا مقابلہ کرنے کے لیے وژن، عزم اور اجتماعی اقدامات سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘