ماحولیاتی تبدیلی سے تمام ممالیہ جانوروں کا خاتمہ متوقع: تحقیق

مستقبل بعید کی سپر کمپیوٹر سیمولیشنز کو استعمال کیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ سورج کے مزید زیادہ روشن ہونے اور زیادہ توانائی کے اخراج سے عالمی درجہ حرارت میں مزید اضافہ کیسے ہو گا۔

22 مئی 2022 کو آرٹک شہر نارلسک میں ایک بھالو ایک بنجر اور ویران علاقے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی/ ارینا یارنسکایا)

ایک نئی تحقیق کے مطابق تقریباً 25 کروڑ برسوں میں غیر معمولی گلوبل وارمنگ تمام ممالیہ جانوروں کو ختم کر دے گی۔

نیچر جیو سائنس نامی جریدے میں پیر کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ دنیا کے براعظم ایک بار پھر ضم ہو کر ایک انتہائی گرم، خشک اور کافی حد تک ناقابل رہائش سپربراعظم کی شکل اختیار کر لیں گے، جسے ’پنجیا الٹیما‘ کہا جاتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی جو ہزار سال میں دیکھنے میں آتی ہے انسانوں کے باعث پیدا ہونے والے ماحولیاتی بحران سے مختلف ہے جو حیاتیاتی ایندھن کے جلنے سے پیش آتا ہے۔

سائنس دانوں، جن میں برسٹل یونیورسٹی کے سائنسدان بھی شریک تھے، نے مستقبل بعید کی سپر کمپیوٹر سیمولیشنز کو استعمال کیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ سورج کے مزید زیادہ روشن ہونے اور زیادہ توانائی کے اخراج سے عالمی درجہ حرارت میں مزید اضافہ کیسے ہوگا۔

محققین کا کہنا ہے کہ زمین کی ٹیکٹونک پلیٹوں کی نقل و حرکت کے نتیجے میں بھی ایک سپربراعظم کی تشکیل کا امکان ہے، جس سے آتش فشاں پھٹنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بہت بڑا اخراج ہوسکتا ہے، جس سے سیارہ مزید گرم ہوسکتا ہے۔

اب تک، ممالیہ جانور – بشمول انسان – زمین پر زندہ رہنے میں کامیاب رہے جس کی وجہ ان میں پانی جانے والی وہ صلاحیت ہے جس سے وہ خود کو سخت موسموں کے حساب سے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں، جیساکہ سردی میں کھال اور ہائبرنیٹنگ کے ساتھ ساتھ ہائبرنیشن کے مختصر سپیل۔

اگرچہ ممالیہ جانوروں نے سرد درجہ حرارت میں زندہ رہنے کے لیے خود کو ڈھال لیا ہے، لیکن گرم درجہ حرارت کی برداشت ان کے ارتقا کے لاکھوں برسوں میں بھی تبدیل نہیں ہوئی۔

لہذا، سیمولیشن کے ذریعے کی گئی پیش گوئی کے مطابق طویل عرصے تک حد سے زیادہ گرمی میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے، جس سے زمین بالآخر ممالیہ جانوروں کے لیے ناقابل رہائش ہو جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف برسٹل سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے سربراہ الیگزینڈر فرنس ورتھ کے بقول، ’نئے ابھرنے والے سپر براعظم سے تہری مشکل صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ جس میں براعظمی اثر، گرم سورج اور فضا میں زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ، جس سے سیارے کے زیادہ تر حصے میں گرمی بڑھ جائے گی۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ ’عام طور پرغیرموزوں‘ سیارہ ہے جو ممالیہ جانوروں کے لیے خوراک اور پانی ک وسائل سے محروم ہے۔

ڈاکٹر فرنس ورتھ کا کہنا تھا، زیادہ حصے پر 40 سے 50 ڈگری سیلسیس کے درمیان درجہ حرارت اور روزانہ کی شدت اس سے بھی زیادہ، (ہوا میں ) نمی کی بلند سطح کے ساتھ مل کر بالآخر ہمیں ختم کر دے گی۔‘

ان کا کہنا تھا، ’انسانوں سمیت بہت سی دیگر انواع بھی اس وجہ سے ختم ہو جائیں گی کہ وہ پسینے کے ذریعے اس گرمی کو خارج اور اپنے جسم کو ٹھنڈا نہیں کر پائیں گی۔‘

سپر کمپیوٹر سیمولیشن سے پتہ چلتا ہے کہ سیارہ اس وقت تک بڑی حد تک قابل رہائش رہ سکتا ہے جب تک کہ زلزلے کے باعث زمینی گہرائی تبدیل نہیں ہو جاتی۔

لیکن جب سپربراعظم وجود میں آئے گا تو تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کا صرف آٹھ سے 16 فیصد حصہ ممالیہ جانوروں کے لیے قابل رہائش ہوگا۔

اس مطالعے میں سائنس دانوں نے درجہ حرارت، ہوا، بارش اور نمی کے رجحانات کی نقل کرتے ہوئے آب و ہوا کے ماڈلز کا استعمال کیا جو پنجیا الٹیما میں ہوں گے، جس کی تشکیل اگلے 25 کروڑ برسوں میں متوقع ہے۔

انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مستقبل کی سطح کے متعلق پیش گوئی کرنے کے لیے ٹیکٹونک پلیٹ کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ سمندری کیمیا اور حیاتیات کے ماڈل بھی استعمال کیے۔

تاہم، محققین نے اس بات کی وضاحت کی کہ گرین ہاؤس گیسوں کے انسانی اخراج کے نتیجے میں جاری عالمی آب و ہوا کے بحران کو نظر انداز نہ کرنا بھی ضروری ہے۔

اس تحقیق کے شریک مصنف یونیس لو نے کہا، ’اگرچہ ہم 25 کروڑ سال میں ایک ناقابل رہائش سیارے کی پیش گوئی کر رہے ہیں، آج ہمیں پہلے ہی شدید گرمی کا سامنا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی لیے جلد از جلد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر تک لانا بہت ضروری ہے۔

یونیورسٹی آف لیڈز سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے ایک اور مصنف بینجمن ملز کے بقول، ’ہمیں لگتا ہےکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آج تقریباً 400 پارٹس فی ملین (پی پی ایم) سے بڑھ کر مستقبل میں 600 پی پی ایم سے بڑھ سکتی ہے۔ یقیناً اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان فوسل ایندھن جلانا بند کر دیں گے، بصورت دیگر یہ اعدادوشمار بلت جلد ہمارے سامنے ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان نتائج کا اطلاق دیگر قابل رہائش سیاروں کی تلاش پر ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دور دراز کی دنیا کے لیے زمینی ترتیب ایک اہم عنصر ہو سکتی ہے جب اس بات کا تعین کیا جائے کہ یہ انسانوں کے لیے کتنا قابلِ رہائش ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فرنس ورتھ نے کہا، ’مستقبل بعید کا منظرنامہ بہت تاریک دکھائی دیتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح موجودہ سطح سے دگنی ہوسکتی ہے۔

’سورج سے 2.5 فیصد زیادہ ریڈی ایشن خارج ہونے کی توقع ہے اور سپر براعظم بنیادی طور پر گرم اور مرطوب قطبی علاقوں میں ہے، ہوسکتا ہے اس سیارے کے زیادہ تر حصے پر درجہ حرارت 40 سے 70 ڈگری سیلسیس درمیان ہو۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات