’کوپ28‘ اور ماحولیاتی تبدیلی کے اہداف

جیسے ہی سونک نے ان تبدیلیوں کا اعلان کیا بائیں بازو کے برطانوی میڈیا نے انہیں اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ برطانیہ ایک ہی راستے پر نہیں چل سکتا چاہے 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں کوئی بھی رہتا ہو۔

ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کام کرنے والے کارکنان 27 اپریل 2023 کو سینٹرل لندن میں مارچ کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے گاڑیوں کی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں (اے ایف پی/ جسٹن ٹالیز)

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے گذشتہ ہفتے کہا ہے کہ تمام تر پیسے اور تمام تر سیاسی اور میڈیا کی حمایت کے باوجود برطانیہ اپنے ماحولیاتی اہداف سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

انہوں نے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار پر پابندی کو پانچ سال تک مؤخر کر دیا ہے۔ یہ پابندی 2030 میں لگنی تھی جسے 2035 تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔

جہاں تک گیزر کا تعلق ہے انہوں نے یہ فیصلہ منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت ضروری تھا کہ مکان مالک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کریں جس سے توانائی کی بچت ہو۔

جیسے ہی سنک نے ان تبدیلیوں کا اعلان کیا بائیں بازو کے برطانوی میڈیا نے انہیں اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ برطانیہ ایک ہی راستے پر نہیں چل سکتا چاہے 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں کوئی بھی رہتا ہو۔

تمام تر پیسے، سیاسی اور میڈیا کی حمایت اور 2045 تک کاربن کے اخراج کے مکمل خاتمے کے ہدف تک پہنچنے کا اعلان کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہونے کے باوجود سویڈن نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مشکل معاشی حالات کی وجہ سے وقت پر ہدف تک نہیں پہنچ پائے گا۔ سویڈن کی کرنسی کرونا کی شرح تبادلہ کم ہوئی ہے۔

دو ہفتے قبل جی 20 نے انڈیا میں ہونے والے اپنے اجلاس میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیتوں میں اضافے پر اتفاق کیا لیکن وہ روایتی ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہا۔

گذشتہ اگست میں امریکی ماحولیاتی ایلچی اور سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اس وقت تک اپنے موسمیاتی اہداف حاصل نہیں کر پائے گا جب تک اسے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل نہ ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے، خاص طور پر جی 20 سربراہ اجلاس کے نتائج سے، کہ عالمی سطح پر ایسے کسی تعاون کا وجود نہیں ہے۔

چند روز قبل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے دو سب سے بڑے ماحولیاتی حامیوں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس، بلومبرگ کے بانی مائیکل بلومبرگ اور برطانوی شہزادہ ولیم کی قیادت میں ایک خصوصی موسمیاتی کانفرنس منعقد ہوئی۔ سب سے اہم بات بل گیٹس کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے اور عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کا مطلب دنیا کا خاتمہ نہیں ہے۔ 

ان الفاظ پر انتہائی بائیں بازو کے میڈیا نے ناراضی کا اظہار کیا جس نے حالیہ برسوں میں بل گیٹس کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ان جنگ کی حمایت کی بدولت تاریخی شخصیت بنا دیا۔ لہٰذا انہوں نے ان کے الفاظ کا حوالہ دیا اور پھر بہت ہی گھٹیا انداز میں قارئین کو خبردار کیا کہ بل گیٹس کوئی ماہر نہیں ہیں اور نہ ہی ماحولیاتی سائنس دان ہیں۔

ذرائع ابلاغ  نے ماحول کے شعبے میں سویڈش حکومت کی انتہا پسندی کے باوجود اس پر سخت نکتہ چینی جب کہ برطانوی وزیر اعظم کو ماحول کے معاملے میں ان کی انتہا پسندی سے تھوڑا پیچھے ہٹنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

 میڈیا نے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے سب سے بڑے حامی کی اہمیت کو اس لیے کم کیا کیوں کہ انہوں نے سچ کہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتہا پسند میڈیا کیا چاہتا ہے؟ اور اس کے پیچھے کون ہے؟ ماحول  کی تبدیلی اس کے لیے ایک ’مذہب‘ بن چکی ہے اور وہ اس کے بارے میں اندھا دھند جنونی ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب وہ کسی بھی انتہا پسند مذہبی گروہ سے مختلف نہیں رہا جس کا ماننا ہے کہ جو کوئی بھی اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا وہ کافر ہے۔

ذاتی طور پر میں سویڈن اور برطانیہ میں سیاسی قیادت پر تنقید کو سمجھتا ہوں، جہاں بہت سے گروہوں کے سیاسی اہداف اور عزائم موجود ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے مالی معاون کی اس لیے توہین کرنا کیوں کہ اس نے ماحول سے متعلق مبالغہ آرائی کے بارے میں بات کی، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاملہ سائنس اور منطق سے آگے نکل گیا ہے۔

منطق کی کمی کا اطلاق نہ صرف انتہائی بائیں بازو کے میڈیا پر ہوتا ہے بلکہ اب بھی ایسے یورپی سیاست دان موجود ہیں جو عجیب وغریب منطق کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے مطالبہ کیا ہے کہ فرانسیسی تیل کمپنیاں شہریوں کو مہنگے داموں ایندھن فروخت کریں تاکہ فرانسیسی عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ مسئلہ کمپنیوں کا ہے نہ کہ ان کی حکومت کی پالیسیاں، جن کی وجہ سے فرانس میں توانائی کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا۔ کئی سال پہلے شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ جو اب تک جاری ہے، کو نظر انداز کر دیا گیا۔

فرانسیسی تیل کمپنیوں نے میکروں کی درخواست مسترد کر دی۔ یہاں مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس دنیا میں سب سے زیادہ ہیں  اور ایندھن پر ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی حال ہی میں تقریبا 40 ارب یورو سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ اگر میکروں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹیکسوں میں کمی کرنی ہوگی۔ کمپنی کے مالکان کو کیوں ہارنا پڑتا ہے تاکہ میکروں سیاسی طور پر جیت سکیں؟

ماحول سے متعلق بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ توانائی کا بحران ہے!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ہم جو بگاڑ دیکھ رہے ہیں وہ سب سے زیادہ باضابطہ  اور اثر کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے لیکن یہ  2020 میں شروع ہوا۔ میں نے 2021 کے آخر میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’کاربن کے اخراج پر قابو پانے کی پالیسیاں، مجموعی زوال اور میڈیا کا نظر انداز کرنا۔‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بگاڑ شروع ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کے مقابلے میں اب فرق یہ ہے کہ میڈیا نے اسے نظر انداز نہیں کیا اور صرف خبروں کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ تنقید بھی شروع کر دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے طویل مدتی حل کی ضرورت ہے، اور مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسندی نے حکومتوں کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے جن پر تیزی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے لیکن یہ پالیسایں حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں اور اخراجات کو ناقابل برداشت حد تک بڑھانے کا سبب ہیں۔

 لہذا ہم دیکھیں گے کہ خرابی جاری رہے گی اور مزید ممالک اعلان کریں گے کہ وہ 2050 میں کاربن کے اخراج پر قابوپانے کا ہدف حاصل نہیں کر سکتےاور یہ کہ اس کے حصول میں کچھ تاخیر ہوگی۔ اس مضمون کے مصنف کو توقع ہے کہ تاخیر ہر پانچ سال بعد ہوگی جس کی تجدید ہوگی تاکہ کاربن کے اخراج پر قابو پانے کا ہدف کبھی حاصل نہ ہو۔ یہ ’پانچ سالہ‘ تاخیر اسے سیاسی طور اور ماحولیاتی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کے لیے قابل قبول بنائے گی۔

مذکورہ بالا تمام باتوں سے بڑھ کر چین، انڈیا، افریقی اور پیٹرول پیدا کرنے والے ممالک کے مؤقف سمیت خاص طور پر روائتی ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے کے حوالے سے جی 20 میں اتفاق رائے کا فقدان، اور آب و ہوا کی تبدیلی اور تیل کی صنعت کے لیے ان کی حمایت کے بارے میں امریکہ میں رپبلکن صدارتی امیدواروں کے موقف کا مطلب یہ ہے کہ ’ماحول سے متعلق بیانیہ‘ تبدیل ہو رہا ہے۔ 

ماحول کے مسئلے پر یورپی بیانیہ اور وہ جو پالیسیاں چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں اپنائے وہ ناکام ثابت ہوئی ہیں اور ان کا متبادل ہونا ضروری ہے۔ اس متبادل پر دبئی میں ہونے والی اگلی موسمیاتی کانفرنس کوپ میں غور کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کانفرنس تمام معیارات کے اعتبار سے تاریخی ہوگی۔

اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ کوئلے، گیس اور تیل کی طلب تمام موجودہ توقعات سے زیادہ ہوگی اور سرمایہ کاری میں کمی اور طلب میں اچانک اضافے کی وجہ سے دنیا کو توانائی کے  بڑے بحران کا سامنا کرنا ہوگا لیکن یہ توانائی کے اس بحران سے چھوٹا ہوگا جس کا سامنا دنیا اس صورت میں کرے گی کہ ماحول کے بارے میں یورپ کا بیانیہ یہی رہا۔

یورپی بیانیہ توانائی کی دستیابی کی نشاندہی کرتا ہے  لیکن بعض اوقات یہ مکمل طور پر غائب ہوجاتی ہے جیسا کہ موسم گرما میں ٹیکسس میں ہوا جب ہوا سے بجلی کی پیداوار کی قیمتوں میں نمایاں کمی  ہوئی اور جیسا کہ 2021 میں برطانیہ میں ہؤا جب ہوا اچانک بند ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں گیس، مائع گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور 21 برطانوی توانائی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

(بشکریہ انڈپینڈنٹ عریبہ)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات