سجاول سندھ کے علاقے دادو کے رہائشی ہیں۔ ان کے پاس ایم اے کی ڈگری ہے اور کراچی میں ماحولیاتی آلودگی سے منسلک ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا گھر اور کھیت حالیہ سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور وہ مالی بحران کا شکار ہیں۔
انہوں نے پڑھا ہے کہ اقوام متحدہ نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے چھ نومبر کو مصر میں عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ 27) کا انعقاد کر رکھا ہے۔
ان کے مطابق ایسے اقدامات کا فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بقول سجاول: ’میں اقوام متحدہ کی کاوشوں کو اس وقت تسلیم کروں گا جب عالمی برادری پاکستان کی مالی مدد کرے گی۔ میرے نقصان کی بھر پائی ہو گی اور اگلے سالوں میں سیلاب نہیں آئے گا۔‘
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے تحت مصر میں ہونے والی کانفرنس پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی بلکہ ستائیسویں مرتبہ یہ کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کو مالی امداد ملنے کے امکانات کم ہیں۔ وزیراعظم کو شرکت کی دعوت ملنا معمول کی بات ہے۔
اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد بھی مطلوبہ امداد حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اقوام متحدہ کے جزل سیکرٹری کے دورہ پاکستان اور مدد کی اپیل کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ وفاقی وزیر شیری رحمان صاحبہ فرما رہی ہیں کہ پاکستان کو اجلاس کا ایجنڈا بنانے میں شامل کیا گیا ہے اور پاکستان اپنا کیس بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ڈاکٹر سلیمان شاہ کے مطابق اس کا فوری فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ ایسے اجلاس کا ایجنڈا تقریباً ایک سال قبل مکمل کر لیا جاتا ہے۔ ممکنہ طور پر پاکستان کی تجاویز کو اگلے اجلاس میں شامل کیا جائے گا۔
ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کی مد میں دنیا پاکستان کی مالی مدد کرنا نہیں چاہتی۔ امریکہ نے 2010 کے سیلاب میں پاکستان کو تقریباً چھ سو ملین ڈالرز امداد دی تھی جبکہ 2022 کے سیلاب میں صرف 53 ملین ڈالرز کے وعدے کیے گئے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں پہلے 15 دنوں میں تقریباً 60 ممالک نے امداد کا اعلان کر دیا تھا لیکن 2022 کے سیلاب میں تقریباً 12 ممالک نے ہی امداد کے وعدے کیے ہیں۔ ایسی صورت حال میں مصر میں منعقد ہونے والے موسمیاتی تبدیلی اجلاس سے مالی امداد کے متعلق اچھی خبر آنا مشکل ہے۔
عالمی طاقتیں اس وقت خود مالی بحران کا شکار ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں سینٹرل بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں تا کہ معیشت کی رفتار سست رکھی جا سکے۔ جو تھوڑا بہت بجٹ انھوں نے رکھا ہوا تھا وہ یوکرین کی امداد میں صرف ہو رہا ہے۔ جہاں تک بات ہے مصر کی جانب سے پاکستان کی امداد کی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ مصر کی اپنی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ وہ خود عالمی طاقتوں سے مالی مدد کی درخواست کر رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے باعث اس وقت سعودی عرب کی معاشی حالت بہتر ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کانفرنس میں پاکستان کی مالی امداد کر سکے۔
اس کانفرنس کی سائید لائنز میں مصر اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھانے پر بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور مصر کا تجارتی حجم تقریباً چار سو ملین ڈالرز ہے۔ جس میں تین سو ملین ڈالرز مصر کی پاکستان کو برآمدات ہیں۔ مصر پاکستان کو گیس فراہم کرتا ہے۔ اگر تجارتی روابط بڑھے بھی تو اس کا فائدہ پاکستان کی بجائے مصر کو زیادہ ہو گا۔
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے جزل سیکریٹری اور ماہر معیشت ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقریباً 90 ممالک اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے بھی اس اجلاس میں شریک ہیں۔ اگر پاکستان نے اپنا کیس بہتر انداز میں پیش کیا تو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ اور نیوٹرل ممالک پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے حال ہی میں افغانستان کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے عالمی کانفرنس پاکستان میں بلائی تھی اور افغانستان کے لیے اچھی مالی امداد اکٹھی کر لی گئی تھیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور امید ہے کہ دنیا پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور کچھ کامیابی حاصل کی جا سکے گی۔
ماروی جاوید موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیات اور قدرتی وسائل پر مہارت رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق گلوبل گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے جبکہ ان کے باعث ہونے والی نقصانات میں پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ صرف تین بڑے ممالک گلوبل گرین ہاؤس گیسز کا 42 فیصد خارج کرتے ہیں۔ ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کے نقصانات کی بھرپائی کریں۔ پاکستان نے اپنے تئیں بلین ٹری منصوبے پر کام کیا ہے تاکہ پاکستانی اور اس کے ہمسایہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے بچ سکیں۔
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور موسمیاتی تبدیلی کی حوالے سے آگاہی مہم کا حصہ رہنے والے میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مصر میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو ایسے منصوبوں کے ساتھ جانا چاہیے، جن سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فرنس آئل کی بجائے پانی، ہوا اور سولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے متعلق مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی والے بھٹے اور موجودہ کھادوں کی بجائے آرگینک کھادیں بنانے کے لیے پلانٹس کا منصوبہ پیش کرنے سے کچھ ڈالرز پاکستان میں آ سکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مصر میں منعقد ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں پاکستان کو بڑی مالی کامیابی ملنے کے امکانات کم ہیں اور دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہو گا۔