ابتر معاشی صورتحال اور شرح سود گاڑیوں کی فروخت میں رکاوٹ: پاما

پاکستان آٹو موبیل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کے دوران ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

کراچی میں گاڑیوں کے ایک شو روم میں نئی گاڑیاں کھڑی ہیں (اے ایف پی) 

پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کے مطابق سال رواں کے دوران ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ملکی معیشت کی ابتری بتائی جاتی ہے۔

پاکستان آٹو موبیل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال رواں نومبر میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار تھی، جو 2022 کے اسی مہینے کے دوران بکنے والی گاڑیوں 18 ہزار تین سو 35 سے تقریباً تین گنا کم رہی۔

پاما کے مطابق جولائی  سے نومبر 2023 کے دوران پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے مجموعی طور پر 33 ہزار سات سو 30 یونٹس فروخت کیے، جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران بکنے والی گاڑیوں کا نصف ہے۔ گزشتہ سال جولائی تا نومبر 66 ہزار چار سو 85 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔۔

پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ملک کی معیشت کی خرابی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’خراب معیشت کے باعث ملک میں بے ہنگم مہنگائی ہے اور چیز کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔

’ایسے میں لوگ پیٹ پالیں گے یا گاڑیاں خریدیں گے؟ اتنی زیادہ مہنگائی میں گاڑیوں کی فروخت کا کم ہونا نہایت ہی منطقی مظہر ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کے علاوہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی دوسرے بڑی وجہ شرح سود کا بڑھنا ہے، جس سے فنانسنگ کے ذریعے بکنے والی گاڑیوں میں کمی واقع ہوئی۔

’کچھ عرصے پہلے تک پاکستان میں بکنے والی 60 فیصد گاڑیاں بینک فنانسنگ کے ذریعے جاتی تھیں جو اب نہ ہونے کے برابر ہو گیا ہے۔‘

عبدالوحید خان کا کہنا تھا کہ 25 سے 26 فیصد سود پر کوئی گاڑی خریدنے کو ترجیح نہیں دے گا اور وہ بھی اس مہنگائی کے دور میں۔

پاما کے ڈائریکٹر جنرل کا مزید کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا کے اثرات بھی ابھی تک آٹو موبیل انڈسٹری پر موجود ہیں اور سال رواں کے دوران گاڑیوں کی فروخت میں کمی کا ایک حصہ اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2023 کے دوران حکومت نے گاڑیوں کے کچھ پرزوں کی درآمد پر نئی شرائط عائد کی تھیں، جن کے باعث بیرون ملک سے آنے والے کنٹینرز کلیئر نہ ہو سکے۔ ’ان پروزوں کے پہنچنے میں دیری کے باعث مینوفیکچرینگ میں تاخیر ہوئی اور اس کا اثر فروخت پر بھی پڑا۔‘

کون سی گاڑی زیادہ فروخت ہوئی؟

سال رواں کے دوران سوزوکی آلٹو کی کارکردگی سب سے بہتر رہی اور یہ گاڑیاں اس سال جولائی سے نومبر کے دوران 11 ہزار سے زیادہ فروخت ہوئیں، جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران سوزوکی آلٹو کے تقریباً 21 ہزار یونٹس بیچے گئے تھے۔

اسی طرح 2023 میں جولائی تا نومبر میں ٹویوٹا (کرولا اور یارس) کے چار ہزار سات سو 25 اور ہنڈا (سوک اور سٹی) کے تین ہزار ایک سو 51 یونٹس بیچے گئے۔

سال 2023 میں جولائی سے نومبر کے دوران گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے ستمبر سب سے بہتر مہینہ ثابت ہوا، جب مختلف اقسام کی آٹھ ہزار تین سو 18 گاڑیوں کی لین دین ہوئی۔ گذشتہ سال کے دوسرے حصے میں سب سے برا مہینہ ستمبر ہی کا تھا، تاہم اس وقت 11 ہزار سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال جولائی سے نومبر کے دوران گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیوں نے مجموعی طور پر 45 ہزار سے زیادہ یونٹس تیار کیے جبکہ گذشتہ سال یہی تعداد 70 ہزار سے زیادہ تھی۔

سال رواں کے دوران موٹر سائیکلوں اور تھری وہیلرز کی فروخت میں بھی کمی دیکھنے مٰں آئی ہے۔

پاما کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں جولائی سے نومبر کے دوران مجموعی طور پر ملک بھر میں پانچ لاکھ 23 ہزار نو سو 36 دو اور تین پہیوں والے موٹر سائیکل فروخت ہوئے تھے، جب کہ سال رواں میں اسی عرصے کے دوران یہ تعداد کم ہو کر چار لاکھ 59 ہزار 459 یوٹنس تک گر گئی۔

اس سال نومبر میں 88 ہزار سے زیادہ موٹر سائیکل اور تہری وہیلرز فروخت کیے گئے جبکہ گذشتہ سال اسی مہینے یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت