2000 سے زائد پاکستانی ہم جنس پرستوں کا برطانیہ سے پناہ کا مطالبہ

پاکستانی اور مسلمان ہم جنس پرستوں کے لیے برطانیہ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کی پاکستانی اور مسلم کمیونٹی میں ان کے اس عمل کو کوئی خاص قبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کسی کو یہ سب معلوم ہو جائے تو وہ ان سے فاصلے بڑھا دیتے ہیں۔

پاکستانی اور اسلامی معاشرے میں اس عمل کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے اور قبولیت عامہ حاصل نہیں اس لیے ایسے کیسز کو بہت باریک بینی  سے دیکھا جاتا ہے۔ (اے ایف پی)

برطانوی ہوم آفس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق  2016 سے 2019 تک 2000  سے زائد پاکستانیوں نے ہم جنس  پرست ہونے کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ہوم آفس کی رپورٹ کے مطابق  درخواست جمع کرانے والوں میں گے، لیزبین، بائے سیکشوئل اور جنس تبدیل کرانے والے مرد و خواتین شامل ہیں۔

 پناہ کی ان درخواستوں میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ انہیں برطانیہ میں رہنے کا حق دیا جائے۔  رپورٹ کے مطابق کسی بھی  مسلمان کیمونٹی کی جانب سے یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد  ایک اور اسلامی ملک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جن کی تعداد 800 کے قریب ہیں۔

ان درخواست گزاروں نے ہوم آفس کے سامنے موقف اختیار کیا ہے کہ  چونکہ وہ ہم جنس پرست ہیں یا ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے ہے اور واپس اپنے ملک  جانے کی صورت میں  ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لیے انہیں برطانیہ میں مستقل قیام کی  اجازت دی جائے۔

ہوم آفس کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریبا 1200 پاکستانی مرد وخواتین کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں کیونکہ وہ اپنا دعوی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم جنس پرستی  کے دعوے دار ایک شخص نے نام  اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ گزشتہ کئی برس سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کا کیس ہوم آفس میں چل رہا ہے اور انہیں فیصلے کا انتظار ہے۔ ان کے مطابق ہوم افس نے ان سے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر کافی مواد طلب کیا ہے جس میں سے کچھ ثبوت انہوں نے ہوم آفس کے سامنے پیش  کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر ان کے کیس کو مسترد کیا جاتا ہے تو واپسی کی صورت میں ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں لیکن وہ یہاں بھی اپنی  کمیونٹی کے سامنے اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں ہم جنس پرست ہونا قانونا منع نہیں اور وہ اس معاشرے میں دیگر شہریوں کی طرح یکساں حقوق کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔

اسی صورت حال کو اگر دوسری طرف سے دیکھا جائے تو پاکستانی اور مسلمان ہم جنس پرستوں کے لیے برطانیہ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کی پاکستانی اور مسلم کمیونٹی میں ان کے اس عمل کو کوئی خاص قبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کسی کو یہ سب معلوم ہوجائے تو وہ ان  سے فاصلے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی کمیونٹی میں ہی رہتے ہیں لیکن ان کی دوستی  اور تعلق کمیونٹی سے باہر کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ ہوم آفس کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

برطانیہ میں مقیم قانون دان اور تجزیہ نگار ماجد خٹک کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برس سے اس طرح کے کیسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ماضی میں  زیادہ تر شدت پسندی اور سیاسی مشکلات کے سبب پناہ کی درخواستیں دی جاتی تھی مگر اب  ایل جی بی ٹی کیسز سامنے آنے لگائے ہیں اور ان درخواستوں میں ایک دم سے اضافہ اس لیے دیکھنے کو ملا ہےکیوں کہ اس میں زیادہ ثبوت  دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ماجد خٹک کے مطابق  ہوم آفس کے پاس 2000 درخواستوں کا جانا بہت بڑی بات ہے۔ ان میں جن 1200 درخواستوں کو ریفیوز کیا گیا ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان  لوگوں کو واپس پاکستان بھیجا جائے گا بلکہ انہیں مزید موقع دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے اس دعوے کے لیے ثبوت لا سکیں۔

کیس مسترد ہونے کے بعد اب ان لوگوں کی اپیل فرسٹ ٹربیون امیگریشن کورٹ میں جائے گی۔ وہاں عدالت ہوم آفس اور درخواست گزار، دونوں سے سوال جواب کرے گی اور اس میں ایک سال تک کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اس دوران عدالت ہوم آفس سے درخواست مسترد کرنے کی وجہ اور درخواست گزار سے ٹھوس ثبوت طلب کرے گی۔

ماجد خٹک کے مطابق زیادہ تر درخواست گزار سامنے نہیں آتے۔ وہ جب عدالت میں جاتے ہیں تو عدالت سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہماری شناخت ظاہر نہ کی جائے۔ اس لیے زیادہ تر کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون ہیں اور ان کا تعلق پاکستان کے کن علاقوں سے ہے۔ عدالت بھی دوران سماعت بطور خاص یہ حکم جاری کرتی ہے کہ اس درخواست گزار کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔

ماجد خٹک کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ  یہ انتہائی حساس نوعیت کا مسئلہ ہے اور یہاں کی حکومت اور عدالت دوںوں اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستانی اور اسلامی معاشرے میں اس عمل کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے اور قبولیت عامہ حاصل نہیں اس لیے وہ ایسے کیسز کو بہت باریک بینی  سے دیکھتے ہیں اور تمام احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ