کیا بریگزٹ کی گونج برطانیہ کے حکومتی حلقوں سے باہر بھی سنائی دیتی ہے؟

زیادہ وسیع تناظر میں بات کی جائے تو ریفرنڈم سے متعلق ہر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ رائے بوڑھے اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو غریب سفید فام علاقوں میں رہتے ہیں۔ رائے شماری کا یہی المیہ سارے ملک میں دیکھا گیا۔

کیا ڈوور کے رہائیشی بریگزٹ سے پریشان ہیں؟ فوٹو پی اے

برطانیہ میں حکومت، پارلیمینٹ اور میڈیا کے نمائندہ حصوں کو بریگزٹ کی بہت زیادہ فکر نظر آتی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں ایسی اطلاعات اور خبروں کا بہاؤ بہت زیادہ رہا ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اگر برطانیہ کسی معاہدے کی صورت میں یا اس کے بغیر یورپی یونین سے نکل گیا تو اسے کس قیامت خیز تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ بھیانک پیشگویاں شاید سچی ہوں اور شاید نہ بھی ہوں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بحران کی موجودہ صورت حال جیسی نظر آتی ہے کیا سارا برطانیہ اس وقت واقعی اسی طرح محسوس کر رہا ہے؟

کیا اس وقت لوگوں کے غم و غصے کی صورتحال ویسی ہے جو 14-1912 والے ہوم رول بحران کے دنوں میں تھی؟ یا جیسی 1832 والے اصلاحاتی بل کے بعد پیدا ہو گئی تھی؟ حتی کہ معاملے کی نزاکت کیا ویسی بھی ہے جیسی سترہویں صدی کی خانہ جنگی کے دوران تھی؟ جس میں 84000 لوگ میدان جنگ میں قتل ہوئے تھے؟ ابھی تک ایسا کچھ بھی ایسا گھمبیر نظر نہیں آتا لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بریگزٹ پہ ہونے والا بحث مباحثہ برطانیہ کے اندر کبھی پرتشدد صورت حال میں بدل ہی نہیں سکے گا۔

پارلیمینٹ کے باہر ایک ممبر کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پہ میڈیا کا کھڑا کیا گیا ہنگامہ  ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ اصل صورتحال کیا ہے۔ 29 مارچ کو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے قبل میڈیا کا اپنی ساری توجہ ویسٹ منسٹر اور سیاسی اشرافیہ کے معمولی ترین بیانات پہ مرکوز کر لینا بھی خبروں اور تبصروں کی مجموعی نفسیات کا ایک اہم رخ ہے۔

تبصرے کرنے والوں نے 2016 کے ریفرنڈم سے حاصل کیا گیا ایک اہم سبق فراموش کر دیا ہے۔ وہ سبق یہ تھا کہ لندن کے ٹی وی، ریڈیو اور اخبار وہاں رہنے والوں کے خیالات سے مکمل طور پہ آگاہ نہیں رہ پائے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ رائے شماری کے بعد انہیں وہ نتیجہ بہت حیران کن لگا تھا۔

یورپی یونین سے علیحدہ ہونے یا نہ ہونے والے فیصلے کی شام لوگوں کے عمومی خیالات جاننے کے لیے انڈیپنڈینٹ نے ان علاقوں میں موجود افراد سے چند انٹرویو  کیے جنہوں نے رائے شماری کے دوران علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا تھا اور جن کی وجہ سے اس رائے کو معمولی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔

لوگوں سے لیے گئے انٹرویوز میں ان کے خیالات جاننے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں بریگزٹ کے متعلق وہ شدت نہیں پائی جاتی جو پارلیمینٹ، حکومت اور چند میڈیا کے اداروں میں پائی جاتی ہے بلکہ وہ کسی قدر لاتعلق اور بےنیاز ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صورتحال کسی وقت بھی بدل سکتی ہے۔

پاؤلا سپنسر جو کنٹربری کے مضافات (تھیننگٹن) میں ایک کمیونٹی سینٹر چلاتی ہیں، ان کے مطابق مقامی لوگوں کے روزمرہ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں بریگزٹ کے متعلق بات کرنے کو فرصت نہیں ہوتی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے متعلق ان کی امیدیں کچھ خاص نہیں ہیں اور وہ اس سے معمولات زندگی بہتر ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہے۔ انہوں نے کہا،”میرے لیے بدترین بات یہ ہے کہ ماں اور باپ دونوں مسلسل نوکری کرتے ہوں اور پھر بھی ان کے پاس اپنی خوراک، کرائے اور معیار زندگی کے لیے پیسے موجود نہ ہوں۔”

پاؤلا کے مطابق تھیننگٹن میں بہت سے لوگ اپنا پورا مہینہ فوڈ بینک کے سہارے گزارتے ہیں، مگر یہ سب پریشانیاں ان کے خیال میں دس برس پہلے ہی اقتصادی بحران ختم ہونے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ جانی چاہئیں تھیں۔ یورپی یونین سے علیحدگی کا ووٹ دینے والے زیادہ  تر لوگ تھیننگٹن جیسے علاقے میں ہی رہنے والے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کم تعلیم یافتہ ہیں اور جن کا گزارہ حکومتی مراعات وغیرہ پہ ہوتا ہے۔

مارٹن روزنبم جنہوں نے بلحاظ عمر، جنس اور تعلیم اس ریفرنڈم کے بارے میں تحقیق مکمل کی، ان کے مطابق زیادہ تر بوڑھے اور کم تعلیم یافتہ ووٹرز کی رائے ہی تھی جو دوران ریفرنڈم گمراہ کن ثابت ہوئی۔ تحقیق کا مکمل ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ ووٹ دینے والوں کی رائے پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں تعلیم کا کردار بہت اہم تھا۔ کم تعلیم یافتہ رائے دہندگان نے ہی زیادہ تر علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔

زیادہ وسیع تناظر میں بات کی جائے تو ریفرنڈم سے متعلق ہر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ رائے بوڑھے اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو غریب سفید فام علاقوں میں رہتے ہیں۔ رائے شماری کا یہی المیہ سارے ملک میں دیکھا گیا۔ علیحدگی کے حق میں سب سے زیادہ ووٹ 82.5 فیصد پڑے۔ یہ مڈلزبرگ میں بریمبلز اور تھورن ٹری کے علاقے تھے۔ یہ ایسی جگہوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں اعلی تعلیم یافتہ یا کم از کم یونیورسٹی کی ڈگری رکھنے والے افراد بھی انتہائی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

نک ایڈن گرین کے مطابق بہت سے لوگوں کی رائے علیحدگی کے حق میں ہونے کی بنیادی وجہ وہی تھی جو ایسٹ کینٹ کے ایسے بہت سے علاقوں میں تھی جہاں بنیادی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ (نک ایڈن لبرل ڈیموکریٹک کونسلر کے طور پہ کنٹربری میں مقیم ہیں۔ تھیننگٹن کنٹربری ہی کے علاقے میں ہے)۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تھیننگٹن جیسے غریب اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے عوام، تعلیم یافتہ طبقے کے برعکس بریگزٹ کے بارے میں کچھ خاص فکر مند ہی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق یہ بحث زیادہ تر پڑھے لکھے لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے، عام آدمی اس سے لاتعلق ہے۔

لوگوں کو بریگزٹ کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں معلوم کہ یہ بس ایک گورکھ دھندے کا نام ہے۔ ان کے خیال میں یہ بات مکمل طور پہ سمجھ بھی آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے خود زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزارا ہے، میں فرانسیسی اور جرمن، دونوں زبانیں بھی بول لیتا ہوں لیکن مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک کو اس وقت کرنا کیا چاہئیے؟ 

کیرولین ہیگی جو 1998 سے یہیں مضافات میں رہتی ہیں، انہوں نے اپنے ہمسایوں کے برعکس یورپی یونین سے علیحدہ نہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر اب انہوں نے اس موضوع پہ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ “جب حکومت خود نہیں جانتی کہ ہونے کیا والا ہے تو میں کس طرح جان سکتی ہوں؟ میں نہیں جانتی یہ مجھ پر کیسے اثر انداز ہو گا حالانکہ میں اپنا شمار ان لوگوں میں کرتی ہوں جنہیں حالات حاضرہ سے کافی زیادہ آگاہی ہو۔ مجھے معیشت کا یہ پورا کھیل سمجھ ہی نہیں آتا۔”

ان کے مطابق جو بات انہیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اس وقت اندرونی بحران کا شکار ہے۔ ان کے خیال میں ساری کشمکش کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ حکومت کرنے جا رہی ہے اور جو عوام توقع رکھتے ہیں، ان دونوں عوامل کے بیچ فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق برطانیہ کی اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہوگی جو اس بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے۔

“مجھے ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جو مجھے یہ بتا سکے کہ اس نے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ کیوں دیا؟ وہ کوئی ایک دلیل بھی مجھے قائل کرنے کے لیے نہیں دے سکے۔ نہ ہی وہ مجھے اس کا ایک بھی فائدہ گنوا سکے۔ میرے خیال میں وہ لوگ جنہوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا انہوں نے اس بارے میں ان لوگوں کی نسبت بہت کم سوچ بچار کی ہے جو یورپی یونین سے جڑے رہنے کے حق میں تھے۔”

تھیننگٹن کو ایسے علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں بنیادی سہولیات کم ہیں۔ یہاں کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے لوگ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں سب کچھ ایسٹ کینٹ کی دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے جیسا ہی ہے۔ وہ اس چیز کی تعریف ضرور کرتے ہیں کہ یہاں رہنے والوں میں بہت حد تک اتفاق اور بھائی چارہ پایا جاتا ہے مثال کے طور پہ اگر کسی کا بچہ گم ہو جائے تو ہر کوئی اسے ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑتا ہے۔ اصل میں کم تعلیم یا بنیادی سہولیات سے محرومی، یہ اصطلاحات ایسی پیچیدہ ہیں کہ ہمیں ان کے اصل مطلب “بھوکے بچے اور جاہل والدین” سے آگاہی ہو ہی نہیں پاتی۔ سب کچھ گنجلک لفظوں کے پردے تلے چھپ جاتا ہے۔ 

تھننگٹن میں رہنے والوں اورحکومتی اشرافیہ کی سوچ کے درمیان یہ نا اتفاقی ظاہر کرتی ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والوں نے ووٹ دیتے ہوئے عموماً اپنی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھا ہوگا۔ اصل میں یہ ریفرنڈم بہت سے لوگوں کی اس ناراضگی اور غیر مطمئن ہونے کو بھی ظاہر کرتا ہے جو گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کے نتیجے میں بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور جس کا تعلق یورپی یونین سے علیحدہ ہونے یا منسلک رہ جانے کے ساتھ بہرحال نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ٹیک بیک کنٹرول کا نعرہ بہت زیادہ بدنامی کی حد تک متاثر کن ثابت ہوا کیونکہ اس کے نتیجے میں برسلز قربانی کا بکرا بن رہا تھا۔ حالانکہ برسلز والوں کا ان تمام معاملات سے کچھ ایسا خاص تعلق بھی نہیں تھا۔

اس پریشان کن چکر کے نتیجے میں طرح کے خیالات جنم لے رہے ہیں ان کا بہترین نمونہ اینٹی یورپی یونین نامی ایک تصویر ہے جو کہ آن لائن موجود ہے۔ اس پہ درج ہے؛ “یورپی یونین حکومت کے چالیس سال” بحری جہاز بننا ختم ہوگئے، کوئلے کی پیداوار ختم ہوگئی، سٹیل کی انڈسٹری ختم ہوگئی۔”

اسی تصویر کے نیچے برطانوی جھنڈے کی ایک تصویر ہے جس کے اوپر یہ الفاظ لکھے ہیں؛ “مچھلی کا شکار ختم ہو گیا۔” پھر اس کے اوپر ایک لفظ موٹاموٹا لکھا ہوا ہے “سچ “ اور اس کے نیچے باریک الفاظ میں لکھا ہوا ہے، “بدعنوان ممبران پارلیمنٹ”۔ اس کے مزید نیچے محکمہ ریلوے، محکمہ بجلی، محکمہ گیس، محکمہ ڈاک، محکمہ پانی اور دیگر کئی اداروں کو "برائے فروخت" کے عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے. اسی جھنڈے پر سائیڈ میں ایک طرف برطانیہ خودمختاری رخصت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

یہ تصویر دکھاتی ہے کہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جانے کا معاملہ صرف برطانیہ اور یورپ کے آپسی تعلقات تک محدود نہیں ہے۔ دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ سٹیٹس کو کی مخالفت کا معاملہ بھی ہے۔ اور یہ سب علیحدگی نہ چاہنے والوں کی خواہشات کے برعکس ہے جو یہ چاہتے تھے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایسے ہی چلتا رہے۔ فی الوقت اس چیز کی پیش گوئی کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ اگر بریگزٹ نہ ہوا تو اس کے حامیوں کا ممکنہ ردعمل کیا ہو گا۔

لیکن اس صورت میں کیا ہوگا اگر بریگزٹ وقوع پذیر ہونے کے بعد مکمل طور پر ناکام ہو جاتا ہے یا کم از کم کچھ عرصے کے لئے مزید معطل ہو جاتا ہے؟ بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والی کوئی بھی فیصلہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان پائے جانے والے سیاسی اور معاشی معاملات کو ظاہر کرے گا جس میں برطانیہ کے مذاکرات کار ممکنہ طور پر اپنی بہترین کوششیں کر چکے ہوں گے۔ بالفرض اگر ایسا کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو بریکزٹ کے حامیوں کے لیے وہ اس سے بالکل مختلف ہوگا جو انہوں نے اپنے پیروکاروں کو بتایا ہے۔

تھریسا مے کا معاہدہ بھی طاقت کے اس توازن کو پہلے سے ہی ظاہر کر رہا ہے جو کہ بدلنے والا نہیں ہے۔ اور جو کچھ بھی ہوتا ہے بریگزٹ کی یہ کہانی کئی برس بلکہ شاید کئی دہائیوں تک چلتی رہے گی۔ بریگزٹ یقینی طور پر برطانیہ کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ معیشت کے لحاظ سے ایک کاروباری ملک کے لیے اپنی سب سے بڑی اور پرانی مارکیٹ کے ساتھ تعلقات محدود کرلینا کوئی اچھا خیال نہیں ہوگا۔ لیکن یہ سارا نقصان ایک دم ہونے کی بجائے بہت طویل عرصے کی مدت پر پھیلا ہوا ہوگا۔

اس سب کے ساتھ ساتھ بریگزٹ کے رک جانے ناکام ہونے یا مکمل طور پہ کامیاب ہو جانے کی صورت میں ہنگامے برپا ہو جانے کی جو پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں وہ اعتدال کی حد سے بہت بڑھی ہوئی لگتی ہیں۔ خاص طور پر ٹرانسپورٹ سیکرٹری کرس گریلنگ (جن کا ریکارڈ خود اپنے فیصلوں پر اعتماد کرنے کے بارے میں کچھ اتنا بہتر نہیں ہے) کی وہ پیشگوئی جس کے مطابق اگر برطانیہ بریگزٹ کے بارے میں کوئی مثبت فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گیا تو برطانیہ کی معتدل سیاست کی روایات دوبارہ 1660 جیسی بادشاہت کی بحالی کے دور میں جا سکتی ہیں۔ گریلنگ بظاہر پوپش پلاٹ سازش یا 1688 کے شاندار انقلاب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

دوسری طرف گریلنگ کے ردعمل کے بارے میں ہم اس بچے کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں جو گاؤں والوں کو ڈرانے کے لئے بھیڑیا بھیڑیا پکارا تھا اور اصل بھیڑیا آ جانے پر خود اس کا شکار ہو گیا تھا۔

علیحدگی کے حق میں جانے والے ووٹرز صرف اس لئے ایک دوسرا ریفرنڈم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اس مرتبہ وہ ہار جائیں گے۔ 2016 میں حالات کی ترتیب کچھ ایسی ہو گئی تھی جو اتفاقی طور پر ان کے حق میں رہی، دوبارہ شاید وہ سب اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہو۔  ان کے ووٹوں میں دیکھا جانے والا غیر متوقع اضافہ اس لئے بھی ہوا تھا کیونکہ انہیں بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کی اپنے ملک آمد کا خوف تھا اور اس خوف میں مزید اضافہ ہر رات سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ان شامی مہاجرین کو ٹی وی پر دیکھ کے ہوتا تھا جو یورپ کی طرف آ رہے تھے۔

شام کی جنگ میں ہونے والی تکلیف دہ اموات بھی ایک اہم خطرہ تھیں جو 2015 اور 16 میں اپنے پورے عروج پر تھیں۔ پیرس اور یورپ کے دوسرے شہروں میں روزانہ داعش کے بندوق بردار اور خودکش بمبار قتل عام کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔  دوسری مرتبہ ریفرینڈم کے حامیوں کا خیال یہ ہے کہ اس مرتبہ جنگ اور مہاجرین کی وہ صورت حال ریفرنڈم پر اثرانداز نہیں ہو سکے گی۔

ڈوور کی بندرگاہ یہ دیکھنے کے لئے ایک اچھی مثال ہے کہ مہاجرین کی آبادکاری کی اہمیت عام لوگوں کے نزدیک کیا ہے۔ قرون وسطیٰ سے برطانیہ کے دروازے کے طور پر  پہچانی جانے والی یہ جگہ جو کہ مسلسل حکومت کی طرف سے نظرانداز رہی ہے اب ایک ایسا پریشان کن علاقہ بن چکی ہے جہاں نوکریوں کی کمی ہے، تعلیم کا معیار بہت کم ہے اور ہر طرف ان کمپنیوں کی دکانیں ہیں جو شاپنگ چینز کہلاتی ہیں۔

درآمدات اور برآمدات سے لدے وہ ٹرک جو کروڑوں پاؤنڈز کے سامان سے بھرے ہوتے ہیں وہ اس بندرگاہ پر آتے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والوں پر ان سے حاصل شدہ رقم بہت کم ہی خرچ کی جاتی ہے۔ ڈوور گزشتہ دنوں اس خبر کے حوالے سے بھی زیر بحث رہا کہ وہاں پر دس ہزار کنٹینرز اس وجہ سے کھڑے ہوئے تھے کیونکہ بریگزٹ کا کچھ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے انہیں آبی گزرگاہ کے پار جانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی تھی۔ اس ساری صورتحال میں واحد اچھی بات یہ ہے کہ ایسا چلتا رہا تو دوبارہ سے پرمٹ اور اجازت ناموں کا پرانا کھیل شروع ہو جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سی نوکریاں روزانہ نئے اجازت نامے جاری کرنے کے لیے پیدا کی جائیں گی۔ 

ڈوور کی آبادی کو بھی کافی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے یاد رہے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بڑی تعداد میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں بھی مہاجرت اور آبادکاری تھیننگٹن سے زیادہ بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔

یہاں تھوڑے بہت ایرانی اور کرد مہاجرین چھوٹی کشتیوں میں آبی گزرگاہ کے راستے داخل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہوتے لیکن سمندر میں جو سفر وہ کرتے ہیں وہ پرخطر ہونے کی وجہ سے ڈاکیومنٹری میں دکھانا پسند کیا جاتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس طرح کے معاملات کی جب بہت زیادہ ویڈیوز اور تصویریں میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں تو مہاجرین کے بارے میں ایک بار پھر اسی طرح کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے جیسا 2016 میں ہوا تھا۔

سیم ہال جو کہ ایک پرائمری اسکول میں پڑھاتی ہیں ان کے مطابق وہ جس سے بھی ملتی ہیں تو انہیں ایسا تاثر ملتا ہے جیسے ان مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے پورا ملک ایک بحران میں مبتلا ہے۔ وہ کہتی ہیں لوگوں میں برداشت کی کمی ہو گئی ہے۔ “آپ سمجھتے ہیں کہ سمندر یا دریا کے ذریعے آنے والے لوگ بے صبرے ہیں، وہ آپ کے وسائل ہضم کرنے کے لیے بے قرار ہیں، لیکن دراصل آپ میں خود صبر کی کمی واقع ہو چکی ہے۔”

مہاجرین کی آباد کاری کے اس مسئلے کا ایک اہم پہلو اور بھی ہے۔ یہ لوگ انگریزی نہیں بول سکتے ان سے بہت زیادہ ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی ان سے بمشکل ہی بات کر پاتے ہیں۔ مقامی لوگ اس بات پہ پریشانی کا شکار ہیں کہ علاقے کو دئیے جانے والے تعلیم کے وسائل ان سلوکئین روما مہاجرین کے بچوں کو انگریزی پڑھانے پر خرچ ہو جائیں گے۔

سیم حال کے مطابق وہ لوگ جو بریگزٹ کے نتیجے میں الگ ہوجانے کے حامی تھے وہ یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ ہمارے وسائل صرف ہمارے اوپر ہی خرچ ہونے چاہئیں۔ ان کے خیال میں تعلیم کم ہونے کی وجہ سے عام آدمی کو یہ بتانا اور اس پر قائل کرنا بہت آسان ہے کہ آباد کار یا مہاجرین صرف ہمارے وسائل کو مفت میں کھانا چاہتے ہیں، ان پر پلنے کے لئے یہاں پر آتے ہیں، یا ایسا کچھ کہ وہ ہماری نوکریاں اپنے قبضے میں لے لیں گے اور ہمارے طبی علاج کی سہولیات کے لیے مختص بجٹ ان پر خرچ کر دیا جائے گا۔ یہ خیال بہت عام ہے کہ جیسے جیسے مہاجرین کو ملنے والی سہولیات میں اضافہ ہوگا اسی رفتار سے ہمارے وسائل یا عام آدمی کے وسائل کم ہوتے چلے جائیں گے۔

شارلٹ کارنل جو وہاں کی لیبر پارٹی کی رہنما ہیں وہ کہتی ہیں کہ لوگ اس سیاسی نظام سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہیں اور خود کو اس کا حصہ خیال نہیں کرتے جو (ان کے مطابق) انہیں کوئی فائدہ دینے کے بجائے انہیں صرف نقصان ہی پہنچا رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے حمایت میں ووٹ دیا تھا لیکن ان کے خیال میں یہ صرف ایک امید کا ووٹ تھا اور صورتحال موجودہ پوزیشن سے زیادہ بری نہیں ہوسکتی۔

ان حالات میں تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے لیکن وہ بہت مبہم سی ہو گی۔ مستقبل کی صورتحال قطعی طور پر غیر واضح ہے۔ ڈوور کا ماضی یقیناً بہت شاندار ہوگا اور ریاستی معاملات کو طے کرنے میں اس کی پوزیشن پرانے وقتوں میں واقعی بہت اہم رہی ہوگی لیکن ماضی قریب میں دیکھیں تو اس کے معاملات بہت زیادہ زوال پذیر رہے ہیں۔ سیم ہال کے مطابق والدین اور بچے مسلسل کم تنخواہ والی نوکریوں اور مہنگائی کے شیطانی چکر میں اس طرح سے پھنسے ہوئے ہیں کہ جس کے بعد حتمی نتیجہ پڑھائی سے دوری یا معیار زندگی کا پست ہونا ہی نکل سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈوور کے لوگ ناراض ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بات اب مکمل طور پر غیر اہم رہ گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں لوگوں میں شدید غصہ اور شدت پسندانہ جذبات اکٹھے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ نے ان سے بریگزٹ کے بارے میں بحث شروع کی تو وہ اپنی رائے دینا بھی پسند نہیں کریں گے کیونکہ ان کی ناراضگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔

کل ملا کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس مرحلے پر یہ بحران صرف برطانیہ کی سیاسی اشرافیہ میں پایا جا رہا ہے۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ حکومت کے سینئر افسر نجی محفلوں میں یہ بات برملا کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بریگزٹ کے نتیجے میں برطانیہ یقینی طور پر کمزور اور غریب تر ہونے کی طرف گامزن ہوگا۔ وہ شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں جب وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ پرانے اتحادی ملکوں کے ساتھ برطانیہ کے روابط ایک دم ختم ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ آئرلینڈ کے ساتھ تعلقات کی صدیوں پرانی بحث دوبارہ سے تازہ ہوجائے گی۔

پڑھے لکھے لوگ اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں اور تکلیف میں ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس ڈوبتے جہاز سے چھلانگ کیسے لگائی جائے۔ ان کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ بھی مایوسی کا شکار ہیں جنہوں نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا تاکہ اسٹیٹس کو میں تبدیلی لائی جا سکے، ان کی امیدیں اور ان کی توقعات پوری ہوسکیں اور نامیدی کے اندھیروں سے ان کی نسلوں کو نکالا جاسکے۔ نظر آتا ہے کہ یہ سب وعدے عنقریب نرا جھوٹ کا کاروبار ثابت ہونے والے ہیں۔

ہمیں بس اب یہ دیکھنا ہے کہ علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے والوں کی مایوسی غصے میں تبدیل ہوتی ہے یا وہ اس مرحلے پر بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین