پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق عوامی رائے جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے ایک آن لائن سروے میں شامل ہونے والوں کی واضح اکثریت کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کی اولین ترجیح ملکی معیشت میں درستگی ہونی چاہیے۔
سروے میں 18 سال سے زائد عمر کے دو ہزار سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا، جن میں سے اکثریت (88.9 فیصد) مردوں کی جبکہ خواتین کا تناسب محض 11.1 فیصد رہا۔
سروے میں شامل اس سوال کہ نئی حکومت کی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ کے جواب میں 73.2 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ معیشت آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ 11.7 فیصد کے نزدیک خارجہ پالیسی نئی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے جبکہ تیسرے نمبر پر 9.4 فیصد کے مطابق امن عامہ ترجیح ہونی چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے سروے کے شرکا میں سب سے زیادہ رائے 26 سے 40 سال کے درمیان کی عمر کے افراد نے دی، جن کا تناسب 53.5 فیصد رہا۔ 18 سے 25 سال کی عمر کے شرکا کا تناسب 25.2 فیصد اور 41 سال سے زائد کی عمر کے افراد کی شرکت کا تناسب 21.3 فیصد رہا۔
کون سی سیاسی جماعت معیشت میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
سروے میں شامل اکثریت کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف ملک کے خراب معاشی صورت حال میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسے افراد کا تناسب 71.1 فیصد رہا جبکہ 16.4 فیصد کے مطابق مسلم لیگ ن معیشت بہتر کرسکتی ہے۔
سروے کے مطابق پیپلز پارٹی کو اس بابت زیادہ حمایت نہیں ملی تاہم تیسرے نمبر پر 9.3 فیصد لوگوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے بہتر قرار دیا۔ سروے میں شرکا دیگر کی وضاحت میں کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں دے سکتے تھے، لہذا معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی دیگر سے مراد کون سی جماعت ہے۔
خواتین شرکا میں سے اکثر نے تحریک انصاف کے حق میں ووٹ دیا، دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن اور باقی خواتین نے دیگر جماعتوں کے حق میں رائے دی۔
کس ملک سے سب سے اچھے تعلقات استوار کرنے چاہییں؟
انڈپینڈنٹ اردو کے سروے میں خارجہ پالیسی سے متعلق اضافی سوال پر کہ اسلام آباد میں بننے والی نئی حکومت کو کس ملک کے ساتھ سب سے اچھے تعلقات استوار کرنے چاہییں؟ زیادہ تر یعنی 38.8 فیصد کی رائے یہ رہی کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دینی چاہیے۔
تاہم چین، امریکہ، روس، انڈیا اور مشرق وسطیٰ میں سے شرکا میں سے 27.2 فیصد نے چین کے ساتھ اچھے تعلقات کو اہم سمجھا جبکہ 15.6 فیصد کی رائے میں روس اور 5 فیصد کی رائے میں مشرق وسطیٰ سے اچھے تعلقات استوار کرنے چاہییں۔ امریکہ کو خلاف توقع اس سلسلے میں زیادہ ووٹ نہیں ملے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ووٹ ڈالنے میں دلچسپی
سروے کا سب سے مثبت پہلو واضح اکثریت کا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ جائزے میں شامل 86 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ فروری کے دن اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے، تاہم 10 فیصد نے ووٹ ڈالنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
لوگوں کی رائے جاننے کی یہ کوشش چونکہ آن لائن کی گئی، لہذا اس کے شرکا وہ افراد ہیں، جن کے پاس انٹرنٹ کی سہولت موجود ہے۔ سروے میں سب سے زیادہ شریک رائے دہندگان یعنی 54.6 فیصد افراد کا تعلق پنجاب، 12 فیصد کا سندھ اور 20.7 فیصد کا خیبرپختونخوا سے تھا۔
اسلام آباد سے اس سروے میں 7.4 فیصد کی شرح سے لوگوں کی شرکت رہی۔ بلوچستان اور دیگر علاقوں سے شرکت کم رہی۔
انتخابات حالات میں بہتری کا سبب بنیں گے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سروے کے ذریعے لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ آٹھ فروری کے انتخابات کیا ملک کی سیاسی و معاشی صورت حال میں بہتری کا سبب بنیں گے یا نہیں۔ شرکا کو دیے گئے تین آپشنز میں رائے تقریباً برابری کی بنیاد پر منقسم دکھائی دی۔
40 فیصد افراد کے مطابق آٹھ فروری کے عام انتخابات بہتری کا سبب بنیں گے جبکہ اس کے برعکس 33.8 فیصد کا خیال تھا کہ ان انتخابات کی وجہ سے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ 26.2 شرکا نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتے یعنی انہیں نہیں معلوم کہ حالات بہتر ہوں گے یا خراب۔
سروے کی تفصیلات
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سروے مدیروں کے بورڈ کی زیرنگرانی خود کیا، جس کا واحد مقصد ووٹرز کی عمومی ترجیحات کا جائزہ لینا تھا۔
اس سروے میں شریک افراد کی ذاتی رائے یا معلومات کسی دوسرے ادارے کے ساتھ شیئر نہیں کی جائیں گی۔ اس سروے میں شرکت کے نتیجے میں ای میل ایڈریس بھی کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
عوامی رائے کی درست عکاسی؟
کسی بھی ملک میں ہر ایک شخص کی رائے لینا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے ادارے صرف چند سو یا چند ہزار افراد کی رائے لیتے ہیں تاکہ عمومی رائے اور رجحانات معلوم ہوسکیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے اس سروے کے لیے سروے فارم سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کیے گیے۔ اس میں شرکت رضاکارانہ تھی، تاہم دو ہزار افراد کی شرکت تحقیق کی دنیا میں ایک معتبر نمونہ (سیمپل سائز) سمجھا جاتا ہے۔ دو ہزار افراد کے سروے میں غلطی کا تناسب دو سے تین فی صد تک ہوتا ہے۔