اگر طلعت محمود نورجہاں کے کہنے پر پاکستان میں رک جاتے تو کیا ہوتا؟

مخملیں آواز والے گلوکار طلعت محمود کو نور جہاں نے ایک ایسی غیرمعمولی پیش کش کی جسے سن کر وہ دنگ رہ گئے۔ طلعت کی 100ویں سالگرہ پر خصوصی تحریر۔

طلعت محمود کا ایک فلم کے لیے پوسٹر (پبلک ڈومین)

طلعت محمود نورجہاں سے بات کرتے کرتے اچانک چونک گئے۔ انہیں نورجہاں نے ایک ایسی پرکشش آفر کی تھی جس نے ان کے قدم ڈگمگا دیے تھے اور وہ سوچ میں پڑ گئے تھے کہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔

یہ آفر تھی طلعت کو پاکستان منتقل ہونے کی، اور ہمارا خیال ہے کہ اگر طلعت محمود نورجہاں کی آفر قبول کر کے پاکستان میں رک جاتے تو ان کے اس وقت کے لڑکھڑاتے کیریئر کو سنبھالا مل جاتا اور قوی امکان تھا کہ پاکستان میں رہ کو اپنے شائقین کو چند اعلیٰ معیار کے گیت دے پاتے، جو وہ بالی وڈ میں نہیں دے پائے۔ 

یہ واقعہ ہے 1961 کا جب سنہری جادوئی آواز والے بالی وڈ گلوکار طلعت محمود اچانک سے کراچی آن پہنچے تھے۔ ان کی آمد سے کراچی کے اس وقت کے ٹھہرے ہوئے ماحول کے تالاب میں جیسے کسی نے پتھر پھینک دیا تھا۔

طلعت محمود کی پاکستان یاترا کا مقصد اپنے بڑے بھائی کمال محمود سے ملنا تھا جو تقسیم کے بعد کراچی آ کر بس گئے تھے۔

پاکستان میں طلعت کے مداحوں کی کمی نہیں تھی، جن میں نورجہاں کے علاوہ مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار بھی شامل تھے۔ مہدی حسن نے خود بتایا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے آغاز میں طلعت کے گانے گایا کرتے تھے جس پر لوگ ان پر نوٹ نچھاور کیا کرتے تھے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، طلعت کی آمد نے کراچی میں تلاطم برپا کر دیا۔ ’السٹریٹڈ ویکلی‘ میگزین نے طلعت کی آمد پر سرخی جمائی تھی: ’طلعت، دا پائیڈ پائپر (The Pied Piper in Town)، یعنی طلعت جہاں جاتے، ان کے پیچھے پیچھے خلقت چل پڑتی۔ ان دنوں ہر کوئی طلعت کو دیکھنے، ان سے ملنے، ان کی آواز سننے کا مشتاق تھا۔ طلعت صرف 20، 25 دن پاکستان میں رہے، لیکن اس دوران موسیقی کی محفلوں، کنسرٹوں، پارٹیوں اور ریکارڈنگز کا تانتا بندھ گیا۔

کراچی کے پولو گراؤنڈ میں ایک کنسرٹ منعقد کیا گیا جس میں طلعت نے اپنے ہٹ گیت سنائے جو اکثر شائقین کو پہلے سے زبانی یاد تھے۔ طلعت کے بھتیجے رشاد محمود نے ’انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس کنسرٹ میں 55 ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔‘

یہ تعداد غیر معمولی ہے، کیوں کہ پاکستان کے مقبول ترین کھیل کرکٹ کے فائنل کو دیکھنے کے لیے مشکل سے 20، 25 ہزار لوگ سٹیڈیم آتے ہیں۔

کراچی اس زمانے میں دارالحکومت تھا، انڈین ہائی کمیشن بھی یہیں تھا۔ وہاں بھی طلعت کے اعزاز میں ایک محفل کا انعقاد کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طلعت کے بھانجے رشاد محمود نے بتایا کہ جب طلعت ہائی کمیشن چلے گئے تو ان کے گھر کے باہر ایک فوجی گاڑی آ کھڑی ہوئی۔ طلعت کے بھائی کمال محمود، جو فوج میں کپتان تھے، سٹپٹائے کہ ایک انڈین شہری کی ان کے گھر آمد سے کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور فوجی اسی کی چھان بین کے لیے آئے ہیں۔

اس سے پہلے کہ وہ صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے، فوجی افسر نے مسکرا کر کہا کہ وہ تو طلعت محمود سے درخواست کرنے آئے ہیں کہ وہ پاکستانی فوجیوں کے لیے بھی ایک پروگرام میں شرکت کریں۔

اس کے بعد طلعت نے فوجیوں کے پوش فلیٹ کلب میں پرفارمنس دی اور پاکستانی فوج کے افسروں کے دل بھی موہ لیے۔

پاکستانی فلمی صنعت ان دنوں اپنے سنہرے دور سے گزر تھی، وہ بھلا کیسے طلعت کی آمد سے فائدہ نہ اٹھاتی؟ چنانچہ طلعت کو دو پاکستانی فلموں میں گیت گانے کی پیشکش کی گئی۔ ان میں سے ایک ’چراغ جلتا رہا‘ تھی جو سپرسٹار فلمی جوڑی محمد علی اور زیبا کی بھی پہلی فلم تھی اور اس کے موسیقار نہال عبداللہ تھے۔

اس فلم کے لیے طلعت نے تین گیت گائے جن میں ’کھولی ہے زبان ہم نے‘ اور غالب کی غزل ’کوئی امید بر نہیں آتی‘ شامل ہیں۔

دوسری فلم ’گھنگھور گھٹا‘ تھی جس کے لیے طلعت نے اپنی آواز عطا کی۔ طلعت کے علاوہ صرف مبارک بیگم ایسی گلوکارہ جنہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کے لیے گیت گائے۔

یہی نہیں بلکہ طلعت محمود نے پاکستان میں سات غیر فلمی ریکارڈنگز بھی کیں جن میں سے دو فیض احمد فیض کی تحریر کردہ تھیں: ’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو،‘ اور غزل ’دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے‘ شامل ہیں۔ ان دونوں کی موسیقی خود طلعت نے ترتیب دی تھی، جب کہ بقیہ نغموں کے موسیقار سہیل رعنا تھے اور انہیں ای ایم آئی نے ریکارڈ کیا تھا۔

ای ایم آئی نے طلعت جیسے سٹار کی آمد کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ڈان اخبار کے پہلے صفحے پر اشتہار دے دیا کہ طلعت صاحب دو سے پانچ بجے تک ای ایم آئی کے سٹوڈیو میں لائیو ریکارڈنگ کریں گے اور اس دوران شائقین ان سے آٹوگراف لے سکیں گے۔

یہ ای ایم آئی کی جانب سے اپنے ریکارڈ کی تشہیر کا ایک نرالا ہتھکنڈا تھا، مگر انہوں نے اس اشتہار کا ردعمل بھانپنے میں غلطی کر دی تھی۔ ان کے ہال میں چند سو کی گنجائش تھی، مگر اگلے روز 15 ہزار سے زیادہ شائقینِ طلعت آن دھمکے، جن میں عوام کے علاوہ مہدی حسن، احمد رشدی اور شمیم آرا کی طرح کئی مشاہیر بھی شامل تھے۔ لوگوں کے اس بےپناہ ہجوم نے ای ایم آئی کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ جن لوگوں نے ٹکٹ خریدے تھے انہیں اندر آنے دیا گیا، جنہوں نے ٹکٹ نہیں لیے تھے، انہوں نے گیٹ توڑ ڈالے، چاردیواری پھلانگ کر اندر آ گئے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سٹوڈیوز میں وہ غدر مچا کہ ای ایم آئی کو ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس طلب کرنا پڑی۔

نورجہاں کی اچھوتی پیش کش اور طلعت کا مخمصہ

طلعت کے اسی دورے کے دوران وہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جس نے طلعت کو چکرا کر رکھ دیا اور جس کا ذکر ہم نے اس تحریر کے شروع میں کیا تھا۔

طلعت محمود کے بھتیجے رشاد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طلعت ہمارے گھر میں تھے کہ لاہور سے نورجہاں کا فون آیا۔ انہوں نے طلعت انکل سے کہا، ’طلعت صاحب، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ پاکستان میں رک جائیں۔ میں موسیقار خلیل احمد سے کہوں گی کہ وہ کراچی جا کر آپ کو نو فلموں کی باضابطہ آفر دے دیں۔ میں آپ سے فیس نہیں پوچھوں گی۔ خلیل بلینک چیک لے کر آئیں گے، آپ جو مرضی چاہیں اس پر لکھ دیجیے گا۔‘

فلم انڈسٹری میں اس قسم کے معاہدوں کی مثال نہیں ملتی۔ معاہدہ ایک دو فلموں کا ہوتا ہے، اور وہ بھی مشروط اور محدود۔ نو فلموں کی آفر کا ذکر کبھی نہیں دیکھا سنا گیا۔ اسی لیے ہم نے بااصرار رشاد محمود سے پوچھا کہ وہ کتنے تیقن سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ خود تو اس وقت بہت چھوٹے تھے۔

اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس بات کا ذکر ان کے والد اور والدہ اکثر کرتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ طلعت کے دوسرے بھائیوں اور بہنوں سے بھی یہی بات سنی گئی۔ خیر، اگر بلینک چیک اور نو فلموں کی بات کو نکال بھی دیں تو یہ بات عین قرینِ قیاس ہے کہ طلعت کو نورجہاں نے پاکستان میں رکنے اور فلموں میں گانے کی آفر کی ہو گی (نو نہ سہی، دو چار فلمیں ہی سہی)۔

 دوسری طرف طلعت کے غور و فکر کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اب بمبئی میں کام ملنا کم کم ہو گیا تھا، حالانکہ صرف چند سال پہلے یعنی 1950 سے لے کر 1955 کے لگ بھگ تک انہوں نے بالی وڈ کی مردانہ گلوکاری کی سلطنت پر بادشاہ کی طرح راج کیا تھا مگر اب ان کے فلمی سفر کی نیا ہچکولے کھانے لگی تھی۔

رشاد محمود کے مطابق طلعت کو نورجہاں نے مزید ترغیب دلائی کہ بہتر ہو گا وہ انڈیا چھوڑ کر پاکستان میں بس جائیں کیوں کہ ان کی تین بہنوں میں سے دو بہنیں پاکستان میں رہتی ہیں، اس کے علاوہ دو بھائی بھی پاکستان میں ہیں، ایک تو رشاد کے والد کمال محمود، اور دوسرے حیات محمود صاحب، جو اس وقت کے مشرقی پاکستان میں مقیم تھے۔

طلعت محمود کئی دنوں تک غور و فکر کرتے رہے اور اپنے بھائی سے اور دوسرے لوگوں سے اس معاملے پر مشورہ لیتے رہے۔

تین چار دن کے بعد میں دروازے کی گھنٹی بجی۔ باہر اس زمانے کے مشہور میوزک ڈائریکٹر خلیل احمد کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خاص طور پر لاہور سے نورجہاں نے بھیجا ہے۔ انہوں نے طلعت صاحب کے آگے بلینک چیک رکھ دیا اور کہا، ’طلعت صاحب، آپ پاکستان ہی میں رک جائیں، آپ کو فلمیں ہی فلمیں ہی ملیں گی۔‘

اس کے علاوہ ہدایت کار اور پروڈیوسر فضل کریم فضلی، جو طلعت کے پرانے دوست اور فلم ’چراغ جلتا رہا‘ کے فلم ساز تھے، وہ بھی طلعت پر زور دیتے رہے کہ پاکستان میں بس جائیں۔

اگر یہی آفر پانچ چھ برس پہلے ہوئی ہوتی تو طلعت اسے رد کرنے میں ایک سیکنڈ نہ لگاتے، کیوں کہ جیسا کہ اوپر ذکر آیا، وہ بالی وڈ کی آنکھ کا تارا تھے۔ تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ چند برس کے اندر اندر اس تارے کی چمک پھیکی پڑ گئی تھی؟

دراصل طلعت محمود کی سب سے بڑی خوبی ہی ان کی سب سے بڑی خامی بن گئی تھی۔ ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی قدرتی لرزش تھی، جس نے اوائل جوانی میں ان کے گیتوں کو ایک خاص قسم کا سوز و گداز بخشا تھا۔ اب یہ لرزش ان کے کیریئر کی بنیادیں ہلانے لگی تھی اور موسیقاروں، اور ان سے بڑھ کر فلم کے ہیروز اور پروڈیوسر طلعت سے آنکھ چرانے لگے تھے۔

یہ لرزش کیا تھی، اس کی وضاحت ایک واقعے سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’میں نے طلعت محمود کو بلایا تھا، تم کون ہو؟‘

یہ ماجرا طلعت کی پاکستان یاترا سے ٹھیک دس برس پہلے یعنی 1951 کا ہے۔ طلعت محمود فلم بالی وڈ سنگیت کے باوا آدم سمجھے جانے والے موسیقار انل بشواس کی فلم ’آرام،‘ جس میں وہ خود بھی ایک کردار ادا کر رہے تھے، کا ایک گیت ریکارڈ کرانے کے لیے پہنچے۔

گانے ’شکریہ اے پیار تیرا شکریہ‘ کی جب ریہرسل شروع ہوئی تو انل بشواس طلعت محمود کی آواز میں ایک نمایاں تبدیلی سن کر دنگ رہ گئے۔ انہوں نے غصے سے کہا، ’میں نے تو طلعت محمود کو اپنا گیت ریکارڈ کروانے کے لیے بلایا تھا۔ تم کون ہو؟‘

انل بشواس اٹھ کر میوزک روم سے باہر چلے گئے اور جاتے جاتے کہہ گئے، ’جب طلعت محمود کو اس کی آواز کی لرزش مل جائے تو اسے دوبارہ لے آنا۔‘ طلعت سازندوں کے ساتھ وہاں بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

اصل میں ان دنوں طلعت کے دل میں ایک وہم بیٹھ گیا جو کسی طور نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ انہیں خوف تھا کہ ان کی آواز میں جو کپکپاہٹ ہے، اس کی وجہ سے ان کا کیریئر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس وہم کے پیشِ نظر انہوں نے فلم ’آرام‘ کے گیت کے لیے گیت میں کوشش کر کے لیے اپنی آواز کی لرزش ختم کر ڈالی تھی، اور اسی بات سے انل بشواس غصے میں آ گئے تھے۔

طلعت کو کو کلکتہ سے بمبئی آئے ہوئے دو سال بیت چکے تھے اور اس دوران وہ بالی وڈ کے نمبر ایک گلوکار بن چکے تھے۔ جہاں رفیع، لتا، مکیش، کشور کمار وغیرہ کو قدم جمانے میں پانچ پانچ سات سات سال لگے، وہاں طلعت محمود نے آتے ہی بمبئی ڈھا دی تھی۔ ان کے گیت آج کل کی زبان کے مطابق ’وائرل‘ ہو کر نہ صرف برصغیر کے کونے کونے میں لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے تھے بلکہ وہ اس دور کے تینوں سپر سٹار دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور کی پس پردہ آواز بن چکے تھے، اور نوشاد، ایس ڈی برمن، سی رام چندر، کھیم چند پرکاش، خیام اور خود انل بشواس ان کے لیے ایک سے ایک میٹھی دھنیں ترتیب دے چکے تھے۔

لیکن طلعت کو معلوم تھا کہ فلمی دنیا میں ’گلہ کاٹ‘ مقابلہ چلتا ہے، کوئی کتنا بڑا سپر سٹار بن جائے، ایک دو ناکامیاں اس کے نیچے سے سیڑھی کھینچ سکتی ہیں۔ طلعت بیشک اس وقت عروج پر سہی، مگر انہیں محمد رفیع، مکیش، مناڈے، ہیمنت کمار اور کشور کمار جیسے باکمال گلوکاروں سے زبردست ٹکر درپیش تھی، اور وہ کسی بھی قسم کی کمزوری دکھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ خاص طور پر محمد رفیع نے حال ہی میں ’دیدار‘ فلم کے لیے ’ہوئے ہم جن کے لیے برباد‘ اور ’نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں‘ جیسے گیت گا کر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔

ہو سکتا ہے کسی ستم ظریف نے طلعت کی آواز کی مذکورہ لرزش کا ذکر کر کے انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ہو۔ اس لرزش کو تکنیکی زبان میں وائبریٹو (vibrato) کہتے ہیں، جس میں آواز بہت نرمی اور خفیف انداز میں دو صوتی پچز کے درمیان لہراتی ہے۔ آپرا کے گلوکار محنت کر کے اپنی آواز میں یہی لرزش پیدا کرتے ہیں کیوں کہ اس طرح آواز میں جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، لیکن طلعت کے گلے میں قدرتی وائبریٹو تھا، جس کی وجہ سے آواز میں خود بخود ایک سوز کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ باقی گلوکاروں، رفیع، مکیش، کشور وغیرہ کے رنگ میں گانے والے بہت پیدا ہوئے، مگر طلعت محمود کا انداز کوئی اور نہیں اپنا سکا، کیوں کہ ان کی آواز کی نقالی کرنا ناممکن نہیں تو بےحد مشکل ضرور ہے۔۔۔ لہجے کی نقالی تو ہو سکتی ہے مگر وائبریٹو کو گرفت میں لینا آسان نہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی فلم ’آرام‘ کے گیت ’شکریہ اے پیار تیرا‘ جسے طلعت نے خود پر جبر کر کے اپنی آواز کی لرزش کو ختم کر کے انل بشواس کو سنایا تھا اور اس سپاٹ آواز کو سن کر انل دا کی طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔

طلعت کی سوانح حیات Talat Mahmood: The Definitive Biographyمیں ان کی پوتی سحر زمان نے لکھا ہے کہ طلعت نے بمبئی کے جوہو ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے جب اس معاملے پر غور کیا تو انہیں احساس ہوا کہ انل دا بالکل درست کہتے ہیں۔ یہی لرزش تو ان کی پہچان ہے، اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر ان میں اور دوسرے گلوکاروں میں کیا فرق رہ جائے گا؟

اگلے دن طلعت دوبارہ گیت کی ریکارڈنگ کے لیے پہنچے۔ طلعت کی سوانح کے مطابق انل بشواس کی صاحبزادی شکلا بشواس کہتی ہیں کہ طلعت جی نے اب کی بار جب انہوں نے ’شکریہ اے پیار تیرا‘ گایا تو دل سے گایا اور یہ شکریہ دراصل ان بشواس کے لیے تھا۔

مگر اب جب طلعت نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، ان کی عمر 37 سال ہو چکی تھی اور آواز کی تھراہٹ بڑھتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے ان کی آواز کی کھنک اور تازگی کم ہونے لگی تھی اور اس میں تھکاوٹ اور بوجھل پن کے آثار نمایاں ہو چلے تھے۔

دوسری طرف 60 دہائی میں موسیقی کے رنگ ڈھنگ بدل چکے تھے۔ پہلے شنکر جے کشن نے بھاری بھرکم آرکسٹرا اور چلبلی دھنوں کو فروغ دیا، پھر ان کی دیکھا کلیان جی آنند جی اور لکشمی کانت پیارے لال اور دوسرے موسیقار اسی راہ پر چل پڑے تھے۔

اب مغربی سازوں پر مبنی درجنوں سازندوں پر مبنی آرکسٹرا کے ساتھ شوخ و شنگ گانوں کا چلن تھا، جن کے لیے طلعت کی آواز مناسب نہیں تھی۔ مثال کے طور پر اسی سال، یعنی 1961 ہی میں بننے والے فلم ’جنگلی‘ کے لیے محمد رفیع نے ایک گیت گایا جو اداکاری کے فن میں پھسڈی مگر کودنے پھاندنے میں طاق اور ایلوس پریسلے کی تیسرے درجن کی ’چائنا کاپی‘ ہیرو شمی کپور پر فلمایا گیا تھا، ’چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے۔‘ کیا کوئی اس گیت کو طلعت محمود کی آواز میں تصور کر سکتا ہے؟

طلعت محمود کی آواز میں ایک خاص نفاست، متانت اور شائستگی تھی، لکھنؤ کی رکھ رکھاؤ والی تہذیب میں رچی ہوئی یہ آواز کیسے ان دھنوں کے لیے مناسب معلوم ہوتی؟

ایسا نہیں کہ طلعت نے صرف سوز و گداز والے گیت ہی گائے ہوں۔ اسی تحریر کے آخر میں ہم ان کے 50 گیتوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کریں گے، جن میں ’بےچین نظر بےتاب جگر،‘ ’آہا رم جھم کے یہ پیارے پیارے گیت لیے،‘ ’دل اے دل بہاروں سے مل،‘ اور ’نین ملے نین ہوئے بانورے‘ جیسے شوخ و شنگ گیت بھی شامل ہیں، مگر یہ شوخی اور نوعیت کی ہے، اس میں وہ چیخم دھاڑ نہیں ہے جو ’جنگلی،‘ ’جانور‘ اور ’بدتمیز‘ جیسے ناموں کی فلموں میں جچ سکے۔

ایک اور بات یہ تھی کہ طلعت محمود 1944 ہی میں ’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘ گا کر پورے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے، اس کے مقابلے پر رفیع، مکیش، کشور وغیرہ کو اس سطح کی شہرت پانے کے لیے لیے 40 کی دہائی کے آخر یا پھر 50 کی دہائی کا انتظار کرنا پڑا۔ ابتدا ہی میں اس زبردست پذیرائی نے طلعت کو شروع میں تو فائدہ دیا، مگر 60 کے عشرے میں وہ دو دہائیاں پرانے فنکار سمجھے جانے لگے تھے۔ 

یہی وجہ ہے کہ ان کا نام اشوک کمار، جی ایم درانی، کانتی لال، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال، پنکج ملک، سریندر ناتھ، موتی لال وغیرہ جیسے گلوکاروں کے ساتھ لیا جاتا تھا جو سب کے سب اپنی باریاں کھیل کر کیریئر سمیٹ چکے تھے۔

اس کی سے طلعت پر بھی عین جوانی میں قدامت کا ٹھپہ لگ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عشرے بعد محمد رفیع کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ فلم ’آرادھنا‘ میں کشور کے گیت ’روپ تیرا مستانہ‘ کے بعد رفیع پرانے زمانے کے سمجھے جانے لگے، اور نئی کھیپ کے ہیرو راجیش کھنہ، امیتابھ بچن وغیرہ ان سے پہلو بچانے لگے۔ 

طلعت محمود کو زمانے کے تیزی سے چکر کاٹنے جھولے کا احساس تھا جو ایک پل آپ کو اونچا اڑاتا ہے، اور اگلے لمحے زمین پر لے آتا ہے، اور وہ کراچی میں اپنے بھائی کمال محمود کے گھر میں نورجہاں کی پیش کش کے بعد ان سب باتوں پر غور کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی طلعت کے آڑے آ رہی تھی، طلعت کے پاس وہ رینج نہیں تھی جو 60 کی دہائی کے دوسرے بڑے گلوکاروں محمد رفیع اور کشور کمار یا مناڈے کے پاس تھی۔ طلعت دھیمے سروں کے گلوکار تھے، ان کی آواز اونچے سروں کے لیے مناسب نہیں تھی۔

1957 کی فلم ’بھابھی‘ کے لیے چترگپت کی نگرانی میں طلعت نے ایک گیت ریکارڈ کروایا، ’چل اڑ جا رے پنچھی۔‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ طلعت نے بہت عمدگی سے گیت ریکارڈ کروایا مگر فلم کے پروڈیوسر کو جو بلند و بالا سر درکار تھے، انہیں چھونا طلعت کے لیے ممکن نہیں تھا۔ آخر یہی گیت رفیع کی آواز میں دوبارہ سے ریکارڈ ہوا۔ دونوں گیت یو ٹیوب پر موجود ہیں اور انہیں سن کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رفیع نے گیت کے آخر میں جو فلک شگاف تانیں لگائی ہیں وہ طلعت کے بس کی بات نہیں تھی۔

ایسا طلعت کے ساتھ بار بار ہونے لگا۔ خود نوشاد، جنہوں نے صرف ایک فلم ’بابل‘ کے بعد کسی نامعلوم وجہ سے طلعت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا (کچھ لوگ کہتے ہیں کہ طلعت نے ان کے سامنے سگریٹ پیا تھا جس سے نوشاد برہم ہو گئے تھے، مگر خود نوشاد اس کی تردید کرتے ہیں)، 60 کی دہائی میں طلعت سے کچھ گیت گوانے کی کوشش کی مگر پروڈیوسر آڑے آ گئے۔

لیکن 50 کی دہائی میں جو گیت طلعت کی رینج میں آ جاتا تھا، وہ اسے یوں گرفت میں لے لیتے تھے کہ وہ پھر کسی بھی دوسرے گلوکار کی پہنچ سے دور چلا جاتا تھا۔

اس بات کو بھی مثال سے واضح کرتے ہیں۔ 1959 میں ’سجاتا‘ نام کی فلم بن رہی تھی جس کی موسیقی سچن دیو برمن دے رہے تھے۔ برمن دادا نے رفیع کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک دھن ترتیب دی تھی، مگر جب فلم کے ہدایت کار بمل رائے نے یہ دھن سنی تو سچن دا کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ یہ گیت طلعت سے گوایا جائے۔

برمن دادا اپنی موسیقی کے معاملے میں کسی کی رائے کو کم ہی خاطر میں لاتے تھے، اس لیے انہوں نے بمل دا کو بھی ٹالنے کی کوش کی مگر بمل رائے نے کہا کہ طلعت کی آواز میں ریکارڈ کر کے دیکھ لیں، اگر مناسب نہ لگا تو بےشک رفیع ہی سے گوائیں۔

چنانچہ طلعت کو بلا کر یہ دھن سنائی گئی۔ کہا جاتا ہے سچن دا نے اس موقعے پر کہا، ’طلعت، میں نے یہ گیت بہت محنت سے بنایا ہے، اسے خراب نہ کرنا۔‘

طلعت مزاج کے تیز تھے (اس کا ذکر نیچے چل کر آئے گا)، کوئی اور موقع ہوتا تو وہ اٹھ کر چلے جاتے، مگر شاید وہ یہ دھن وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے اس گیت کو گانے میں تن من لڑا دیا۔ آپ نے اگر اب تک یہ گیت نہیں سنا تو بہت خوش قسمت ہیں کہ اسے پہلی بار سننے کی ناقابلِ بیان مسرت سے گزریں گے: ’جلتے ہیں جس کے لیے تیری آنکھوں کے دیے۔‘

کیا آپ اس گیت کا رفیع یا کسی بھی اور گلوکار کی آواز میں تصور کر سکتے ہیں؟ یہ طلعت کی رینج ہے، کہ اس میں جو دھن آ گئی، وہ اس کو یوں اپنے اندر سمو لیتے تھے کہ کوئی اور اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔

ایس ڈی برمن کا طلعت کو بمبئی سے کراچی فون

ہم بات کر رہے تھے طلعت کے پاکستان میں رک جانے کے معاملے کی جس نے طلعت کو مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ طلعت اگر پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کرتے تو یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوتی۔ خود نورجہاں بالی وڈ میں اپنے عین عروج کے زمانے میں پاکستان چلی آئی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے خاوند شوکت رضوی (فلم ساز)، سعادت حسن منٹو (سکرپٹ نگار)، خورشید انور، ماسٹر غلام حیدر، فیروز نظامی، رشید عطرے اور ناشاد (موسیقار) اور درجنوں دوسرے لوگوں میں پاکستان آ کر سیکنڈ اننگز شروع کی تھی۔   

اتنی پرکشش پیش کش اور پھر دوسرے مضبوط دلائل کے بعد طلعت کا دل شاید پسیج جاتا، لیکن اسی دوران ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ طلعت کو بمبئی سے ایس ڈی برمن کا فون آ گیا، جنہوں نے طلعت کو پاکستان رکنے کا خیال سختی سے جھٹک کر فوراً واپس انڈیا پہنچنے کی تلقین کی۔

رشاد محمود کے مطابق ایس ڈی برمن نے کہا کہ ’طلعت، ’جلتے ہیں جس کے لیے‘ کے بعد سے تمہارے کیریئر کو نیا جنم مل گیا ہے، تمہاری سیکنڈ اننگز شروع ہو گئی ہے۔ میں خود پروڈیوسروں سے مل کر تمہیں فلمیں دلواؤں گا۔ تم جلد سے جلد واپس آ جاؤ۔‘

رشاد محمود صاحب نے جو واقعہ ہمیں سنایا وہ طلعت صاحب کی بھانجی پوتی سحر زمان کی تحریر کردہ سوانحِ حیات  Talat Mahmood: The Definitive Biography میں درج نہیں ہے۔ ہم اسے ذرا کھولنے کی کوشش کرتے ہیں:

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ’جلتے ہیں جس کے لیے تیری آنکھوں کے دیے، 1959 میں بننے والی فلم ’سجاتا‘ کے لیے ریکارڈ ہوا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گیت مقبول ضرور ہوا تھا، مگر اتنا بھی نہیں کہ سست پڑتی گاڑی کے لیے ایکسلیریٹر کا کام دے سکے۔ اس سال کے بناکا گیت مالا میں یہ گیت 17ویں پائیدان پر تھا، رفیع کے ’چاند سا مکھڑا کیوں شرمایا‘ (انسان جاگ اٹھا) اور مکیش کے ’چین و عرب ہمارا‘ (پھر صبح ہو گی) سے اوپر مگر ’میں رکشہ والا‘ (چھوٹی بہن)، ’سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری،‘ اور ’حال کیسا ہے جناب کا‘ سے نیچے، بہت نیچے۔

ایس ڈی برمن نے طلعت کی آواز سب سے پہلے 1951 کی فلم ’ایک نظر‘ میں استعمال کی۔ گیت تھا، ’لٹا دے اپنی خوشی۔‘ اس کے بعد اگلے آٹھ برسوں نے برمن دا نے طلعت کے لیے کل ملا کر 15 گیت کمپوز کیے، جن میں سے آخری گیت تھا۔۔۔ ’جلتے ہیں جس کے لیے۔‘

یعنی حیرت انگیز طور پر ایس ڈی برمن انڈیا سے کال کر کے طلعت کو فوراً بمبئی واپس آنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جلتے ہیں جس کے لیے نے تمہاری کیریئر کو نئی اڑان دے دی ہے، میں خود فلم سازوں کے پاس جا جا کر تمہاری سفارش کروں گا، وہ دوسروں سے تو کیا سفارش کرتے، خود 1959 کے بعد سے اپنی وفات یعنی 1975 تک 45 فلموں کی موسیقی ترتیب دیتے ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی طلعت کو قریب پھٹکنے نہیں دیتے، حالانکہ ان فلموں میں درجنوں دھنیں ایسی تلاش کی جا سکتی ہیں جو طلعت کی آواز میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح سجتیں۔

رشاد محمود نے ہمیں بتایا کہ طلعت محمود نے کہا کہ وہ پاکستان میں رکنے یا نہ رکنے کے دوراہے پر کھڑے تھے کہ ایس ڈی برمن کے فون نے ان کا فیصلہ آسان کر دیا کہ انہیں واپس انڈیا چلے جانا چاہیے۔

لیکن افسوس کہ ان کے واپس جانے پر ایس ڈی برمن نے ان کے لیے کچھ کیا، نہ ہی کوئی اور طریقہ کام آ سکا اور ان کے سورج بدستور ڈھلتے ڈھلتے بالآخر 60 کی دہائی کے وسط میں غروب ہی ہو گیا۔.

یاد رہے کہ ہم فلمی کیریئر کی بات کر رہے ہیں، ورنہ  غیر فلمی غزلوں کے ریکارڈ آتے رہے، اور بنگالی اور دوسری زبانوں میں گلوکاری کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔  

فلمی دنیا بھی عجیب ستم ظریف دنیا ہے کہ ہیرو کو زیرو بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ طلعت کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جتنی تیزی سے وہ اوپر گئے، اتنی ہی تیزی سے واپس نیچے بھی آ گئے۔ اس سے پہلے کہ ہم کراچی میں نورجہاں کی فون کال کے بعد ان کے ردِ عمل کا ذکر کریں، تھوڑی بات ان کے اوپر جانے کی ہو جائے کہ یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔

وہ آیا، اس نے دیکھا، فتح کر لیا

طلعت محمود کراچی آنے سے 11 سال پہلے بمبئی میں وارد ہوئے تھے جب ان کی عمر 25 برس تھی۔ انہوں نے اس سے قبل کلکتہ میں چند گیت اردو اور بنگلہ زبان میں گا رکھے تھے، مگر غیر فلمی گیت ’تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی‘ کی زبردست مقبولیت کے باوجود ان کے کیریئر کی سمت ابھی متعین نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ کلکتہ کو خیرباد کہتے ہوئے قسمت آزمانے ہندوستان کے سب سے بڑے فلمی مرکز پہنچے تھے۔

اس مرکز میں سب سے نمایاں موسیقار انل بشواس تھے، جنہیں بالی وڈ سنگیت کا پتاما بھیشم (باوا آدم) کہا جاتا تھا، اسی لیے طلعت محمود نے سب سے پہلے انہی کے پاس حاضری دینا مناسب سمجھا۔ یہاں ایک مزےدار واقعہ پیش آیا۔

طلعت محمود بڑی امیدیں لے کر انل بشواس کے میوزک روم میں پہنچے، جو انل بشواس کے گھر ہی میں بنا ہوا تھا، اور اپنا تعارف ’طلعت محمود‘ کے نام سے کروایا۔

اگرچہ طلعت محمود اس سے قبل کلکتہ میں اپنی پہچان بنا چکے تھے، مگر انل بشواس اس نام کے کسی فنکار سے واقف نہیں تھے۔ انہوں نے نوجوان کی شکل و صورت اور قد و قامت سے قیاس کر لیا کہ شاید وہ ہیرو کے کردار کے لیے قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنی بیگم آشا لتا بشواس کے دفتر بھجوا دیا جو فلم پروڈکشن کا کام کرتی تھیں۔

دراصل طلعت محمود اس وقت توپن کمار کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کلکتہ سے کیا تھا، اور موسیقار پنکج ملک کے کہنے پر اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنا نام بدل لیا تھا۔ ایسے ہی جیسے یوسف خان دلیپ کمار بن گئے تھے، یا موسیٰ عباس نے اپنا نام بدل کر سنتوش کمار رکھ لیا تھا۔

چونکہ انل بشواس بھی کلکتہ سے بمبئی آئے تھے اور شاید وہاں کسی سٹوڈیو میں طلعت اور ان کا آمنا سامنا رہا ہو، اس لیے طلعت کو توقع رہی ہو گی کہ انل بشواس انہیں جانتے ہوں گے، مگر اس طرح سے اپنے میوزک روم سے نکال دینے سے انہیں سخت غصہ آیا اور وہ پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔

اسی وقت کسی نے انل بشواس کو ان کی غلطی کا احساس دلایا۔ طلعت محمود کی پوتی سحر زمان نے ان پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انل بشواس نے بار بار طلعت کو فون کر کے اپنے پاس بلانے کی کوشش کی مگر لکھنؤ کے تہذیب یافتہ طلعت محمود اس سبکی کو بھلانے کے لیے تیار نہیں تھے کہ انل دا نے انہیں اپنے کمرے سے نکال دیا تھا۔

آخر انل بشواس کے شاگرد اور خود چوٹی کے موسیقار سی رام چندر نے طلعت کو بڑی مشکل سے قابو کیا اور انہیں پکڑ کر استاد کے پاس پہنچے۔ آگے کا واقعہ خود طلعت سے سنیے: ’انل بشواس نے مجھ سے کہا، ’تم نے ابھی تک بمبئی میں ایک گیت بھی ریکارڈ نہیں کروایا لیکن پھر بھی خود کو اتنا بڑا سٹار سمجھتے ہو کہ میری فون کالز کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے؟‘

ان دنوں انل بشواس فلم ’آرزو‘ کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے، جس میں مرکزی کردار دلیپ کمار کا تھا۔ فلم کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی مگر انل بشواس نے طلعت کو موقع دینے کے لیے ایک نیا گیت ریکارڈ کروایا جس کے لیے اضافی شوٹنگ کر کے اسے فلم میں شامل کیا گیا۔

دلیپ کمار کی روح کا آہنگ

یہ گیت تھا، ’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو،‘ جو بالی وڈ میں طلعت کی دھماکہ دار انٹری ثابت ہوا جس نے ان کے لیے تمام دروازے کھول دیے۔ خاص طور پر دلیپ کمار جیسے چڑھتے ستارے پر فلمائے جانے کی وجہ سے طلعت کا ستارہ بھی بامِ عروج پر پہنچ گیا۔

اس کے بعد اگلے کئی برس تک طلعت دلیپ کی آواز بنے رہے اور ان دونوں کی شراکت نے بالی وڈ کی تاریخ کے چند سب سے سریلے اور رسیلے گیت دیے، جن میں ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی،‘ ’شامِ غم کی قسم،‘ ’اے میرے دل کہیں اور چل،‘ ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ،‘ ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان،‘ ’متوا لاگی رے،‘ جیسے لازوال گیت شامل ہیں۔

دلیپ کمار نے خود ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اے میرے دل کہیں اور چل‘ میری بہترین نمائندگی کرتا ہے۔ رفیع اور مکیش نے بھی میرے لیے عمدہ گیت گائے مگر طلعت محمود میری روح کی آہنگ کی آواز تھے۔‘

بات صرف دلیپ تک محدود نہ رہی، بلکہ ایک سال کے اندر اندر طلعت محمود نے اس دور کے تینوں بڑے ہیروز کے لیے پس پردہ آواز دی، جن میں دلیپ کے علاوہ دیو آنند (’مدھوبالا‘) اور راج کپور (’جان پہچان‘) شامل ہیں۔

یہ زمانہ طلعت کے عروج کا تھا۔ جب آل انڈیا ریڈیو نے فلمی گانوں پر تقریباً پابندی لگا دی تو ریڈیو سیلون خالی جگہ پر کرنے کے لیے آگے بڑھا اور 1952 میں ان کا پروگرام ’بناکا گیت مالا‘ برصغیر کے کونے کونے میں سنا جانے لگا۔

پہلے سال بناکا گیت مالا کے گیتوں کی رینکنک کا رواج نہیں تھا، مگر سال کے چوٹی کے نو گیتوں میں سے پانچ طلعت کی آواز میں تھے۔ لتا، رفیع، مکیش، مناڈے، گیتا دت اور شمشاد بیگم جیسے گلوکاروں کی موجودگی میں یہ حیرت انگیز کامیابی تھی اور برصغیر کے کونے کونے میں طلعت کا نام گونجنے لگا تھا۔

طلعت کی اسی زبردست مقبولیت کو کیش کرنے کے لیے عبدالرشید کاردار کو ایک انوکھی ترکیب سوجھی۔ طلعت وجیہہ، بلند قامت اور نفیس لب و لہجے کے مالک تھے، کیوں نہ انہیں فلم میں بطور ہیرو کاسٹ کیا جائے؟

یوں فلم ’دلِ ناداں‘ کا ڈول ڈالا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ فلم کی کہانی بھی طلعت محمود کی زندگی سے مماثل تھی۔ ایک روایتی گھرانے کا نوجوان جو گلوکاری کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے مگر اس کے والد دیوار بن جاتے ہیں۔ نوجوان کے سامنے کوئی اور راستہ نہیں رہتا سوائے اس کے کہ وہ گھر چھوڑ کر بمبئی کا رخ کرے۔

روایتی خاندان

طلعت کے ساتھ بھی تقریباً یہی کچھ ہوا تھا۔ وہ 24 فروری 1924 کو لکھنؤ کے ایک قدامت پرست گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، جہاں خاندانی پروگراموں یا سکول وغیرہ میں گانے پر تو کوئی پابندی نہیں تھی، مگر طلعت کے والد منصور محمود اسے کیریئر بنانے کے سخت خلاف تھے، اور طلعت کو نوجوانی میں ان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

طلعت نے میٹرک علی گڑھ یونیورسٹی کے اندر قائم مِنٹو سرکل سکول سے کیا۔ مختار مسعود اپنی کتاب ’حرفِ شوق‘ میں اس بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جو خود اسی سکول کے طالب علم تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جامعہ علی گڑھ کے اندر دو ہائی سکول قائم تھے، ایک تو یہی منٹو سکول، جس میں خود مختار بھی پڑھتے تھے، اور دوسرا سٹی سکول، ان دونوں کے درمیان زبردست مسابقت رہتی تھی۔ کھیل کا میدان ہو، تقریری مقابلے ہوں یا امتحانات میں پوزیشن کا معاملہ، اکثر منٹو سکول بازی لے جاتا تھا، لیکن پھر کیا ہوا کہ سٹی سکول کا فارغ التحصیل ایک لڑکا ہندوستان بھر میں مشہور ہو گیا، جس کی وجہ سے سٹی سکول والے سرکل سکول والوں کو چڑانے لگے کہ دیکھو اب ہمارا مقابلہ کر کے دکھاؤ۔

یہ لڑکا شکیل بدایونی تھا جس نے مشاعروں میں زبردست شہرت حاصل کر کے سٹار بن چکا تھا۔ مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ہمارے سکول میں اس کی ٹکر کا کوئی لڑکا نہیں تھا، البتہ ہمارے سکول کے دو بھائی اسمبلی میں قومی نغمے بہت جوش و جذبے سے گایا کرتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک پہلے کلکتہ اور پھر بمبئی چلا گیا اور اس کی شہرت شکیل بدایونی سے بھی بازی لے گئی۔

یہ لڑکا طلعت محمود تھا جو اپنے بھائی کمال محمود کے ساتھ علی گڑھ کے ہائی سکول کی اسمبلی کے دوران نغمے سنایا کرتا تھا۔

بات ہو رہی تھی فلم ’دلِ ناداں‘ کی، جس کی موسیقی غلام محمد نے ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں طلعت نے چار گانے گائے جن میں سے ’زندگی دینے والے سن‘ آج بھی سنا جاتا ہے۔

فلم تو ہٹ نہ ہو سکی، مگر طلعت کو اس کے بعد کئی دوسری فلموں میں بھی اداکاری کا موقع ملا، جن میں ’ایک گاؤں کی کہانی،‘ ’ڈاک بابو،‘ ’وارث،‘ ’دیوالی کی رات،‘ ’لالہ رخ‘ اور ’سونے کی چڑیا‘ وغیرہ شامل ہیں، مگر طلعت آل انڈیا ریڈیو کے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ’مجھے اداکاری سے سخت ترین نفرت تھی،‘ لیکن ’مجھے پکڑ کر دھکیل دیا گیا، تو مجبوراً کرنا پڑا ورنہ ہمیشہ سے میں گانا ہی چاہتا تھا۔‘

فلمی کیریئر تو اپنی جگہ مگر طلعت نے غزل گائیکی، جو ان کا پہلا پیار تھی، ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور وقتاً فوقتاً غیر فلمی غزلیں بھی گاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ بنگالی اور دوسری زبانوں میں گائیکی کا سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ طلعت نے پنجابی میں بھی گیت ریکارڈ کروائے۔

1956 میں طلعت نے ایک اور کام کیا جو ان سے پہلے بالی وڈ کسی نے کیا تھا، اور وہ تھا بیرونِ ملک ثقافتی دورے۔ انہوں نے مشرقی افریقہ سے ابتدا کی اور اس کے بعد وہ دنیا کے متعدد ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے شائقین کا دل گرماتے رہے۔

ایسے ہی ایک دورے میں 1961 میں وہ پاکستان آئے تھے۔ بیرونِ ملک دورے تبھی کیے جاتے ہیں جب آپ کے پاس اپنے ملک میں کام نہ ہو۔ طلعت کو 1955، 56 کے بعد سے بالی وڈ کی ہندی فلموں میں کام ملنا بہت کم ہو گیا تھا۔ اسی لیے وہ کبھی بنگالی، کبھی مراٹھی، کبھی تیلگو کے گیت گاتے، کبھی غیر فلمی غزلوں کے ریکارڈ جاری کرتے۔ ان کے لیے یقیناً یہ صورتِ حال نفسیاتی طور پر تباہ کن رہی ہو گی، کہ چند برس پہلے وہ کامیابی کے آسمان سے اب بےکاری کی زمین پر آ گئے تھے۔

ان کی خودداری کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، اب یہ ہونے لگا تھا کہ ان کے ریکارڈ کیے گیت ہی دوسری گلوکاروں کی آواز میں دوبارہ سے ریکارڈ ہونے لگے تھے۔ وہ ہیرو، جن پر ان کی آواز جچتی تھی، اب رفیع، مکیش اور کشور کو ان پر ترجیح دینے لگے تھے۔ اداکاری انہیں ویسے ہی پسند نہیں تھی، مگر جن آٹھ دس فلموں میں کام کیا تھا، وہ بھی کوئی چمتکار نہیں دکھا سکی تھیں۔ اس دوران طلعت کے گرو انل بشواس بھی بالی وڈ کے نئے ہنگاموں سے تنگ آ کر اسے خیرباد کہہ چکے تھے اور انہوں نے دہلی میں بسیرا کر لیا تھا۔

اس کے علاوہ طلعت کے ہیرو بھی اب نظریں پھیر چکے تھے۔ دلیپ پر رفیع کی آواز چسپاں ہو گئی تھی، راج کپور مکیش کے ہو گئے تھے اور دیو آنند پر کشور کمار نے قبضہ جما لیا تھا۔ شمی کپور کی اچھل پھاند اور ہاؤ ہو کو بھی رفیع نے سنبھال لیا تھا۔ گویا ہر طرف دھند ہی دھند تھی۔

مدن موہن طلعت کے دوست تھے۔ انہوں نے 1964 میں بننے والی فلم ’جہاں آرا‘ کے ذریعے طلعت کے کیریئر کو دھکا لگانے کی کوشش کی۔ مدن موہن نے طلعت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دھنیں ترتیب دیں مگر پروڈیوسر اوم پرکاش کا ووٹ محمد رفیع کے حق میں تھا۔ یہ تنازع اس حد تک بڑھا کہ مدن موہن نے کہہ دیا کہ طلعت نہیں تو میں فلم چھوڑ دوں گا۔ انہوں نے یہ پیش کش بھی کی کہ وہ طلعت کے گیت خود اپنے خرچ پر ریکارڈ کروائیں گے۔

آخر اوم پرکاش کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اس فلم کے تین گیت طلعت کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے: ’پھر وہی شام وہی غم وہی تنہائی ہے،‘ ’میں تری نظر کا سرور ہوں،‘ اور ’تیری آنکھ کے آنسو پی جاؤں۔‘

سچی بات یہی ہے کہ گیت عمدہ سہی مگر ان میں طلعت کی آواز میں وہ تازگی اور لطافت نہیں ہے جو 50 کی دہائی کے اوائل میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی کوشش کے باوجود یہ فلم طلعت کے کیریئر کو کسی قسم کا اچھال نہیں دے سکی، اور وہ اس دہائی میں مٹھی بھر گیت ہی گا سکے۔

طلعت کے کل گیتوں کی تعداد 450 کے لگ بھگ ہے۔ یہ تعداد ان کی شہرت اور مقبولیت کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اس کے مقابلے پر محمد رفیع نے سات ہزار سے زیادہ گیت گا رکھے ہیں، جب کہ آشا بھوسلے اور لتا کے گیتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔

1961 میں کراچی میں نورجہاں نے انہیں لاہور سے فون کال پر کہا تھا، ’میں موسیقار خلیل احمد سے کہوں گی کہ وہ کراچی جا کر آپ کو نو فلموں کی باضابطہ آفر دے دیں۔ میں آپ سے فیس نہیں پوچھوں گی۔ خلیل بلینک چیک لے کر آئیں گے، آپ جو مرضی چاہیں اس پر لکھ دیجیے گا۔‘

خلیل احمد واقعی بلینک چیک لے کر طلعت کے پاس کراچی پہنچ گئے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی یہ واقعہ درست ہے تو نورجہاں نے یہ عجیب و غریب پیش کش کیوں کی تھی؟ وہ کاروباری سوجھ بوجھ رکھتی تھیں پھر ایسا جذباتی فیصلہ کیوں کیا؟

شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ نورجہاں کو بالی وڈ کی تازہ صورتِ حال کا اندازہ نہ رہا ہو۔ انہیں شاید معلوم نہ ہو کہ طلعت کا سورج گہنانے لگا ہے۔ وہ ابھی بھی انہیں 50 کی دہائی والا طلعت سمجھ رہی تھیں جن کی مقبولیت کو کیش کروانے کے لیے پروڈیوسر ہر حربہ اختیار کرنے پر آمادہ تھے۔ کاردار کی جانب سے طلعت کو بطور ہیرو کاسٹ کرنا اس کی ایک مثال ہے۔

شاید ان باتوں کی بنا پر نورجہاں کو توقع رہی ہو کہ طلعت پاکستانی فلمی انڈسٹری میں کوئی انقلاب لا سکتے ہیں۔

بہرحال، جو بھی وجہ ہو، لیکن یہ پیش کش بہرحال غیر معمولی تھی، اور یہی وجہ تھی کہ طلعت کو اس پر غور کرنے میں اتنا وقت لگا۔

لیکن طلعت کو شاید اب بھی امید تھی کہ ان کا بالی وڈ میں کیریئر سنبھالا لے سکتا ہے۔ شاید ایک دو گیت ہٹ ہو جائیں تو نیچے جاتی ہوئی یہ قوس رخ بدل لے۔ پاکستان میں طلعت کو غیرمعمولی پذیرائی ملی تھی، مگر پاکستان فلمی صنعت بہرحال بالی وڈ کے مقابلے پر بہت چھوٹی تھی۔ دوسری جانب انڈیا میں ہندی کے علاوہ دوسری زبانوں میں گانے کے مواقع موجود تھے اور طلعت بنگالی میں پہلے ہی اپنا نام بنا چکے تھے۔  

پھر اوپر سے ایس ڈی برمن جیسے مہان موسیقار کی فون کال۔ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے طلعت نے نورجہاں کی پیش کش ٹھکرا دی اور واپس انڈیا چلے آئے۔

لیکن کیا جب آگے چل کر طلعت کو بالی وڈ میں ایک سے بڑھ کر ایک مایوسیوں اور تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ موسیقار کے وعدے کے بعد گیت دوسروں کی آواز میں ریکارڈ کروانے کی ہزیمت تک برداشت کرنا پڑی تو کیا انہیں کبھی کبھی تنہائیوں میں خیال آتا ہو گا کہ اگر انہوں نے نورجہاں کی پیش کش قبول کر لی ہوتی تو بہتر ہوتا؟’

اور اگر طلعت واقعی پاکستان میں رک جاتے تو؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر طلعت یہاں رک جاتے تو شاید ان کے لیے اور ان کے مداحوں کے لیے بہتر ہوتا۔ 1961 کے بعد سے طلعت نے بالی وڈ میں کوئی خاص قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ یعنی ہمارا خیال ہے کہ 61 کے بعد کے طلعت کا کام اگر نکال بھی دیا جائے تو طلعت کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

سوائے ’جہاں آرا‘ کے، جس میں مدن موہن نے لڑ لڑ کر اور فلم سے الگ ہونے کی دھمکی دے کر طلعت سے گیت گوائے۔ یہ طلعت جیسے خوددار فنکار کے لیے سبکی کی بات تھی کہ ان سے گیت گوانے کے لیے دوستوں کو اپنا کیریئر خطرے میں ڈالنا پڑ رہا ہے۔ 

پاکستان میں طلعت کو نو فلموں کی بلینکٹ آفر مل گئی تھی (اگر واقعی ایسا ہوا تھا)، پھر وہ اگر یہاں رک جاتے تو اس وقت کے نمبر ون میل پلے بیک سنگر ہوتے، جب کہ انڈیا میں رفیع، کشور، مکیش، ہیمنت کمار، مناڈے کو تو چھوڑیں، 60 کی دہائی میں مہندر کپور تک طلعت کو چیلنج کر رہے تھے۔ 

البتہ پاکستان میں رشید عطرے، خورشید انور، فیروز نظامی، نثار بزمی، خلیل احمد، سہیل رعنا، ناشاد، روبن گھوش اور دوسرے کئی لاجواب موسیقار موجود تھے جو اگلے دس سال نہ سہی تو پانچ سات برس تک طلعت کی آواز سے رس کشید کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ 

اس لیے ہمارا خیال ہے کہ طلعت پاکستان منتقل ہو جاتے تو ان کا نیا جنم ہوتا، اور کچھ نہیں تو وہ ایک کیسٹ برابر اچھے گیت تو ضرور دے جاتے، جب کہ بالی وڈ میں 61 کے بعد ان کے اچھے گیت ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہیں۔ 

یہ سب ’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘ کا کھیل ہے، اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج ہم اس بارے میں صرف گمان ہی کر سکتے ہیں، لیکن دل کے بہلانے کو یہ خوش گمانی بری نہیں کہ طلعت پاکستان میں رک جاتے تو کیا عجب کہ ہم ’جلتے ہیں جس کے لیے،‘ ’شامِ غم کی قسم‘ اور ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی‘ کے ساتھ ساتھ طلعت کے پاکستان میں گائے گیت بھی گنگنا رہے ہوتے۔

طلعت کے 50 لازوال گیتوں کا انتخاب 

طلعت نے بالی وڈ کے لیے 450 گیت گائے۔ ہم نے سب تو نہیں لیکن اکثر سن کر آپ کے لیے 50 لازوال گیت بڑی محنت سے منتخب کیے ہیں جو ہمارے خیال میں طلعت کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں:

سولو

  1. یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی
  2. شامِ غم کی قسم
  3. جلتے ہیں جس کے لیے
  4. اے غمِ دل کیا کروں
  5. اے دل مجھے ایسی جگہ
  6. محبت ترک کی میں نے
  7. بےچین نظر بےتاب جگر
  8. جب کسی کے رخ پہ زلفیں
  9. اے میرے دل کہیں اور چل
  10. تصویر بناتا ہوں تری
  11. چاند مرا بادلوں میں
  12. ڈوب گئے آکاش کے تارے
  13. دل متوالا لاکھ سنبھالا
  14. پیار پر بس تو نہیں ہے
  15. متوا لاگی رے یہ کیسی ان بجھ آگ
  16. میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا
  17. پھر وہی شام
  18. جائیں تو جائیں کہاں
  19. تم تو دل کے تار چھیڑ کر
  20. پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
  21. تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
  22. ستارو تم گواہ رہنا
  23. جھومے رے نیلا امبر جھومے
  24. مری یاد میں تم نہ آنسو بہانا
  25. رات نے کیا کیا خواب دکھائے

دوگانے

  1. سینے میں سلگتے ہیں ارمان
  2. اتنا نہ مجھے سے تو پیار بڑھا
  3. رم جھم کے یہ پیارے پیارے
  4. تیرے ساتھ چل رہے ہیں
  5. ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ
  6. راہی متوالے
  7. نین ملے نین ہوئے بانورے
  8. دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
  9. چلی کون سے دیس
  10. ملی من کی ڈگر
  11. کہتا ہے دل تم ہو میرے لیے
  12. پیاس کچھ بھڑکا دی
  13. دل اے دل بہاروں سے مل
  14. دل جواں ہے آرزو جواں
  15. ٹھنڈی پون چلے
  16. اے صنم آج یہ قسم کھائیں
  17. ڈر لاگے دنیا سے
  18. آ جا آ جا ترا انتظار ہے
  19. یہ نئی نئی پریت ہے
  20. ندی کنارے ساتھ ہمارے
  21. دل میں سما گئے سجن
  22. محبت میں ایسے زمانے بھی آئے
  23. دل دل سے کہہ رہا ہے
  24. دو دل دھڑک رہے ہیں
  25. چاہے کتنا مجھے تم بلاوو

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی