محمد عزیز عرف منا خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے جب کسی کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی: ’ارے منا۔۔ کوئی انو ملک ملنے آئے ہیں۔‘ محمد عزیز نے اس آواز کو نظر انداز کیا اور یہی سمجھا کہ خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن تواتر کے ساتھ انہیں پکارا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں کسی نے جھنجوڑا کر اٹھایا تو تب انہیں احساس ہوا کہ خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں کوئی انہیں بتا رہا تھا کہ موسیقار انو ملک ان سے ملنے آئے ہیں۔
محمد عزیز کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت بمبئی کے مضافاتی علاقے گورگاؤں میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ انو ملک کا سن کر انہوں نے جلدی سے چارپائی کے نیچے سے چپلیں نکالیں اور کم و بیش دوڑتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں انو ملک کھڑے تھے۔
انو ملک کے لیے محمد عزیز کو تلاش کرنا کسی شہزادی کی خواہش کو پورا کرنے کا مشن بن گیا تھا۔ 80 کی دہائی تھی کمپوزر سردار ملک کے بیٹے انو ملک مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے لیکن کسی بڑی ہِٹ فلم سے اب تک محروم تھے۔ انو ملک کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ انہیں ہدایت کار من موہن ڈیسائی نے امیتابھ بچن کی فلم ’مرد‘ کے لیے منتخب کر لیا لیکن اصل آزمائش تو اب انو ملک کے لیے شروع ہوئی تھی۔
من موہن ڈیسائی، محمد رفیع کے بہت بڑے مداح تھے اور اپنی بیشتر فلموں کے لیے محمد رفیع کی آواز کا استعمال کرتے لیکن گلوکار کی وفات کے بعد وہ ان کی کمی خاصی محسوس کرتے۔ گو کہ شبیر کمار محمد رفیع کے متبادل کے طور پر پیش کیے گئے جنہوں نے من موہن ڈیسائی کی فلم ’قلی‘ میں بھی نغمہ سرائی کی تھی، مگر من موہن ڈیسائی کا خیال تھا کہ رفیع صاحب جیسی گلوکاری کو کوئی اور چھو نہیں پایا۔
انو ملک کو اپنی فلم ’مرد‘ کا موسیقار منتخب کرنے کے بعد جب ٹائٹل گیت ’مرد تانگے والا، میں ہوں مرد تانگے والا‘ بنایا گیا تو اسے سننے کے بعد من موہن ڈیسائی نے بے اختیار کہا کہ رفیع صاحب جیسا کوئی گلوکار ہو تو وہی اس گانے کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے۔ انو ملک ڈھونڈ کر لائیں ایسا کوئی گلوکار جو واقعی رفیع صاحب کی یاد دلا دے۔
من موہن ڈیسائی کے لیے درد سر یہ بھی تھا کہ امیتابھ بچن اور کشور کمار کی سرد جنگ چل رہی تھی۔ امیتابھ بچن نے کشور کمار کی فلم ’ممتا کی چھاؤں‘ میں بطور مہمان اداکار آنے کے لیے معذرت کر لی تھی، جس نے کشور کمار کو ایسا آگ بگولہ کیا کہ انہوں نے امیتابھ بچن کے لیے پس پردہ گلوکاری نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہی وجہ تھی کہ امیتابھ بچن کے لیے شبیر کمار کی آواز زیادہ سے زیادہ استعمال کی جا رہی تھی۔
من موہن ڈیسائی جیسے بڑے ہدایت کار کی فلم ملنے کے بعد انو ملک کو لگا تھا کہ اب ان کا کیریئر ایک نئے مقام کی طرف سفر کرے گا، کیونکہ جہاں فلم کے ہدایت کار من موہن ڈیسائی تھے وہیں ہیرو امیتابھ بچن، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اب ایسی آواز تلاش ہو جو محمد رفیع جیسی ہو۔
انو ملک کو کسی نے بتایا کہ ایک لڑکا محمد عزیز عرف منا ہے جو ہو بہو رفیع صاحب جیسی آواز میں گلوکاری کرتا ہے۔ بے چارہ کئی سٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہتا ہے لیکن کوئی گھاس نہیں ڈالتا اور بسا اوقات کسی چھوٹی موٹی تقریب میں اسے رفیع صاحب کے سدا بہار گیت گاتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ انو ملک نے کسی نہ کسی طرح محمد عزیز کا پتہ حاصل کیا اور پھر ان کی کھوج میں نکل پڑے۔
دور حاضر کے برعکس اس وقت کسی کو تلاش کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام تصور کیا جاتا تھا۔ موسیقار انو ملک نے اس آگ کے دریا کو پار کرنے کی ٹھان لی تھی۔ جو پتہ ملا تھا وہاں محمد عزیز نہیں تھے اور پھر کئی لوگوں سے پوچھتے پوچھتے وہ صبح سویرے گور گاؤں کے اس علاقے تک پہنچ گئے جہاں کے ایک حصے میں محمد عزیز رہتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد عزیز کو تو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ان کے سامنے موسیقار انو ملک کھڑے تھے۔ انو ملک نے محمد عزیز سے کہا کہ انہیں ایک گیت ریکارڈ کروانا ہے۔ محمد عزیز کو لگا کہ جیسے ان کی مراد برآئی ہے۔
وہ اسی وقت چلنے کو تیار تھے لیکن پھر انو ملک نے اگلی صبح آنے کا کہا۔ محمد عزیز کی آنکھوں سے تو اس رات نیند غائب ہی ہو گئی۔ بستر پر کروٹیں بدلتے سورج نکلنے کا انتظار کرتے رہے۔ اگلے دن وہ بمبئی کے علاقے جوہو میں انو ملک کے مقابل تھے۔
محمد عزیز کو گیت سنایا گیا جو انہوں نے ریہرسل کے بعد جیسے رٹ ہی لیا۔ اب محمد عزیز اور انو ملک کی منزل من موہن ڈیسائی تھی، جنہوں نے جب محمد عزیز کو سنا تو بے اختیار کہہ اٹھے ’گانا تو یہی گلوکار گائے گا۔‘
ایک نئے گلوکار محمد عزیز کی تو سمجھیں جیسے لاٹری ہی نکل آئی۔ محمد عزیز نے اس فلم میں صرف ’مرد تانگے والا‘ ہی نہیں بلکہ ایک اور گیت ’ہم تو تمبو میں‘ بھی گنگنایا۔ یہ دونوں ہی گانے بے انتہا مقبول ہوئے۔
فلم ’مرد‘ جب آٹھ نومبر 1985 کو سینیما گھروں میں سجی تو ان گانوں کی وجہ سے اس نے کاروبار بھی خوب کیا۔ بہرحال ’مرد‘ کے ذریعے بالی وڈ کو محمد عزیز جیسا سریلا گلوکار اور انو ملک جیسا چلبلا موسیقار ملا۔
محمد عزیز فلم ’مرد‘ کے بعد ہر موسیقار کی ضرورت بن گئے۔ محمد عزیز کی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ فلم کے ہیرو کو ذہن میں رکھ کر بالکل محمد رفیع کی طرح گلوکاری کرتے۔ ان کے لیے یہ بڑا اعزاز ہی تھا کہ انہیں محمد رفیع کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا۔
اپنے محبوب گلوکار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی آواز میں فلم ’کوردھ‘ میں ایک گیت ’محمد رفیع تو بہت یاد آیا‘ بھی پیش کیا گیا جو امیتابھ بچن پر ہی عکس بند کیا گیا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بے شمار مدھر گیت گانے والے محمد عزیز صرف دو بار فلم فیئر ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے لیکن ایک بار بھی اسے حاصل نہ کر پائے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نئے گلوکاروں کی آمد ہوئی تو بیشتر موسیقار محمد عزیز کو بھول بیٹھے اور پھر 27 نومبر 2018 کو یہ گلوکار خاموشی سے موت کی نیند جا سویا۔
محمد عزیز کے مشہور گیت
میں تیری محبت میں پاگل ہو جاؤں گا (تری دیو)
تیرا بیمار میرا دل (چال باز)
تو مجھے قبول میں تجھے قبول (خدا گواہ)
جانے دو جانے دو مجھے جانا ہے (شہنشاہ)
مائی نیم از لکھن (رام لکھن)
دل تیرا کس نے توڑا (دیاوان)