قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا: عمران خان

عمران خان نے کہا ہے کہ قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔ جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہیں کیا ان سے باز پرس کی جائے گی۔

عمران خان کی ہدایت پر زاہد نواز مروت کو ڈی پی او کا چارج دیا گیا ہے جنھوں نے زینب قتل کیس میں ملزمان کو گرفتار کیا تھا ( اے ایف پی)

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ضلع قصور میں تین لاپتہ بچوں کی لاشیں ملنے کے واقعے کے بعد کہا ہے کہ سب کا محاسبہ ہوگا۔

قصور واقعے کے بعد عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔ جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہیں کیا ان سے باز پرس کی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھایے جانے والے اقدامات کے تحت ڈی پی او قصور کو ہٹایا جارہا ہے۔

پاکستان کا ضلع قصور ایک مرتبہ پھر سے خبروں میں ہے اور اس بار بھی وجہ لاپتہ ہونے والے تین بچوں کی لاشیں ہیں، جن میں سے فیضان نامی ایک بچے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ریپ کے بعد قتل کی تصدیق ہو چکی ہے۔

آٹھ سالہ فیضان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انہیں جنسی زیادتی کے بعد گلا دبا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچے کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ان تین بچوں میں سے دو گذشتہ ماہ جبکہ ایک بچہ دو روز سے لاپتہ تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ایس پی انوسٹیگیشن قصور خود کو قانون کے حوالے کرچکے ہیں اور چارج شیٹ کے بعد ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔

’قصور پولیس کی از سرِنو صف بندی کی جارہی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تحقیقات کے لیے احکامات دیے جاچکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان کی ہدایت پر زاہد نواز مروت کو ڈی پی او کا چارج دیا گیا ہے جنھوں نے زینب قتل کیس میں ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب عارف نواز سے رپورٹ طلب کی تھی، جن کی ہدایت پر تفتیش کے لیے تین سے چار ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔

 گذشتہ سال جنوری میں بھی ضلع قصور سے تعلق رکھنے والی سات سالہ زینب کے ساتھ ریپ اور قتل کی خبریں نہ صرف پاکستانی بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر گردش کرتی رہی تھیں۔

زینب کے ساتھ ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد قصور سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے، جس کے بعد مجرم کو سزائے موت سنائی گئی۔

ضلع قصور کے علاقے چونیاں میں بھی بچوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے چونیاں تھانے کے باہر جمع ہوکر احتجاج کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق شہر کا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ نوجوان اور بچے ڈنڈے اٹھائے دکانیں اور سڑکیں بلاک کرکے انصاف کی دہائی دیتے نظر آئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس بار جب تک ضلع میں بچوں کو تحفظ دینے کی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آتی اور ملزمان گرفتار نہیں ہوتے احتجاج جاری رکھا جائے گا۔

ہر کچھ عرصے بعد قصور میں ایسے واقعات کیوں سامنے آ جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی سوال سوشل میڈیا صارفین اس تازہ واقعے کے بعد بھی اٹھا رہے ہیں۔

مریم نامی صارف نے لکھا: ’مجھے نہیں لگتا کہ زینب کو انصاف ملا ہے۔ اگر ایسا ہوتا، تو آج ہمیں قصور سے بچوں کی لاشیں نہ ملتیں۔ ہم زینب کے معاملے میں ناکام رہے۔‘

فہیم نامی صارف نے وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تین بچوں کو دو ماہ قبل اغوا کیا گیا اور ریپ کے بعد بری طرح قتل کیا گیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ شیریں مزاری کو جاگنے اور یہ باور کرانے کے لیے کہ ہمارے بچے یہاں محفوظ نہیں کتنی لاشیں چاہیے ہوں گی۔‘

پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والے ہیش ٹیگ ’قصور‘ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کرنے والے زیادہ تر صارفین ایک ہی بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’ہمارے بچے یہاں محفوظ نہیں ہیں۔‘

عمران لالیکا نے کہا کہ ’براہ مہربانی کوئی عمران خان کو بتائے کہ اس وقت ان کی جتنی توجہ کشمیر کو چاہیے اتنی ہی قصور کو بھی چاہیے۔‘

احمر مراد نے بھی عمران خان کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈیئر عمران خان، منتخب ہونے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطاب میں قصور کے بچوں کے لیے محسوس کیے جانے والے درد کی بات کی تھی۔ پچھلی حکومت اور آپ کی ٹیم نے انہیں مایوس کیا ہے۔ اس کے لیے آپ کی ذاتی قیادت چاہیے۔ براہ مہربانی انہیں مایوس نہ کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان