چترالی خواتین کا سوال: آخر یہ کریم اللہ ہے کون؟

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر کے مطابق پشاور میں مقیم چترالی لڑکیوں کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ ایک محلے کے امام مسجد نے ان خواتین پر فحاشی کا الزام لگاتے ہوئے انہیں شہر سے نکالنے کا حکم صادر کیا ہے۔

چترالی خواتین کا کہنا ہے  انھیں بھی حق ہے کہ وہ دیگر لڑکیوں کی طرح اپنی مرضی سے  زندگی گزاریں (اے ایف پی)

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کرنے لگی کہ پشاور میں مقیم چترالی لڑکیوں کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ ایک محلے کے امام مسجد نے ان خواتین پر فحاشی کا الزام لگاتے ہوئے انہیں شہر سے نکالنے کا حکم صادر کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر کریم اللہ نامی شخص کی جانب سے تحریر میں لکھا گیا کہ کچھ مہینے پہلے بھی پشاور کے ایک معروف محلے کی مسجد میں کچھ نمازیوں نے چترالی خواتین پر فحاشی کا الزام لگاتے ہوئے بے پردہ خواتین کے لیے بدترین سزا تجویز کی تھی۔

کریم اللہ نے یہ خبر سنا کر آخر میں خود کئی سطروں میں چترالی خواتین کے لباس اور ان کی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے پر اظہار خیال کیا ہے۔  یہی نہیں بلکہ موضوع پر مزید تبصرہ کے لیے قارئین کو اگلی قسط کا انتظار کرنے کو بھی کہا ہے۔

اس خبر کی صداقت جاننے کے لیے اور دوسری جانب کا موقف لینے کے لیے ہم نے اس محلے جانے کا فیصلہ کیا جہاں چترالی خواتین کی ایک بڑی تعداد مختلف شعبوں میں کام یا پڑھائی کی غرض سے ہوسٹلوں میں مقیم ہے۔ 

اس محلے میں دو مساجد تھیں اور دونوں میں ہی معلومات کرنے پر جواب ملا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان ہی میں سے ایک مسجد میں تبلیغ کے غرض سے قیام پذیر وزیرستان کے ایک شخص نے بتایا ان کی موجودگی میں ایسی کوئی بات نہ ہوئی اور نہ انھوں نے کچھ ایسا سنا۔

ہم نے محلے کے کچھ دکان داروں سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس محلے میں چترال کی بہت سی خواتین رہ رہی ہیں لیکن ان دکان داروں کے مطابق انہوں نے کبھی کچھ غلط دیکھا نہ سنا۔ البتہ کچھ نوجوانوں نے ان خواتین کے کردار پر کسی حد تک انگلی ضرور اٹھائی۔

چونکہ چترالی لوگوں کے خدوخال فوراً پہچان لیے جاتے ہیں لہٰذا باوجود حجاب کے ہم نے سبزی کی ایک دکان پر ہم نے دو خواتین کو خریداری کرتے ہوئے بھانپ لیا کہ ان کا تعلق چترال سے ہے۔ 

دونوں خواتین نے میری بات سن کر ہوسٹل جانے کی دعوت دی، جہاں قریباً 60 چترالی خواتین رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ان کو بھی فیس بک اور دیگر ذرائع سے پتہ چلا، جس کے بعد نہ صرف وہ خود بلکہ ان کے گھر والے بھی انتہائی پریشان ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان خواتین میں سے کچھ طالبات ہیں اور کچھ نرسنگ یا دیگر شعبوں میں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ ہوسٹل کی خستہ حال عمارت کے تنگ و تاریک کمروں میں زمین پرغیر معیاری کارپٹ کے ٹکڑے بچھا کر یہ خواتین ہر قسم کے موسم کا دلجمعی سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ بقول ان خواتین کے، انہیں اس طرح کی زندگی گزارنے کی عادت ہو گئی ہے۔

ہوسٹل کی تمام چترالی خواتین ایک کمرے میں جمع  ہو کر باری باری اس معاملے پر بات کرنے لگیں۔ سب سے پہلے ان کی چترالی وارڈن عذرا بی بی نے بات کی اور کہا وہ اور ان کے گھر والے اس خبر سے سخت پریشان ہیں۔ ’آخر ایک امام نے کیوں ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ کل کو خدانخواستہ ہمیں کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا!‘

دوسرے ہی لمحے وارڈن نے کہا انھیں لگتا ہے یہ ان خواتین کے خلاف کوئی سازش ہے۔ ’کوئی ہے جو اپنی دشمنی میں اس طرح کی افواہ پھیلا رہا ہے۔ سب سے پہلے انڈپینڈنٹ اردو والے یہ پتہ کروائیں آخر یہ کریم اللہ کون ہے؟؟!‘

اس بات پر دوسری خواتین بھی ان کی تائید میں بولنے لگیں اور کہا انھوں نے جہاں بھی خبر پڑھی ہر جگہ اسی شخص کی لکھی ہوئی تحریر سامنے آرہی ہے۔ ان خواتین نے مطالبہ کیا کریم اللہ سے پوچھا جائے ان کو یہ معلومات کہاں سے ملیں، کیونکہ تب ہی اصل لوگوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔

چترالی خواتین کا کہنا ہے انھیں بھی حق ہے کہ دیگر لڑکیوں کی طرح زندگی اپنی مرضی سے گزاریں کیونکہ اگر انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا تو صرف چترال کا نام لے کر انھیں کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔

’ہم لوگوں کی دقیانوسی سوچ کی وجہ سے حجاب پہننے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمیں بھی برا لگتا ہے جب مرد ہم پر جملے کستے ہیں، ہمیں گھورتے ہیں۔ یوں لگتا ہے چترال کی لڑکیوں کو یہاں لوگ بے سہارا سمجھتے ہیں، لہذا انہیں لگتا ہے وہ جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب متعلقہ تھانے سے اس معاملے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ڈی ایس پی کا کہنا تھا کہ کچھ وقت پہلے ایک اور محلے سے کسی شہری کی شکایت موصول ہوئی تھی لیکن وہ چترالی خواتین کے بارے نہیں تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل