’خواتین کو ظلم و ستم کے خلاف بولنے کا موقع ملے گا’

صنفی تشدد اور بدسلوکی سے متاثرہ تمام خواتین کے لیے اس سائیٹ تک پہنچ نہایت آسان رکھی گئی ہے۔

نئی ویب سائٹ کے سرورق پر تصویر عورتوں کے اتحاد کی عکاسی کرتا ہے۔ فوٹو: اب اور نہیں

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے  خواتین کو ہراساں کرنے اور ان پر ہونے والے صنفی تشدد کے انسداد کے لیے قانونی نمائندگی اور نفسیاتی مشاورت فراہم کرنے والے ایک آن لائن پورٹل کا آغاز کیا ہے.

یہ ویب سائٹ متاثرہ خواتین کو مددگار وسائل فراہم کرنے میں مددگار ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق یہ ویب سائٹ انہیں تجربہ کار حامی وکلا کے ساتھ رابطے کی سہولت بھی فراہم کرے گی۔

مہوش علوی جو تحفظ ماحولیات کے ادارے کی ایک سرگرم رکن ہیں، ان کے مطابق ورکنگ وومن کے لیے یہ ویب سائٹ بہت اہم ہے اور اس کی مدد سے پاکستان کی خواتین کو ظلم و ستم کے خلاف بولنے کا موقع ملے گا۔ ان کے خیال میں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے۔

انہوں نے وکلا تک رسائی کے اس سہولت کو بہت پسند کیا اور ان کے خیال میں وہاں موجود وکلا کی تعداد میں مزید اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خواتین اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا کریں کہ ایک بار شکایت درج کرنے کے بعد مردوں کی طرف سے گوشمالی کے نتیجے میں اپنی شکایت دوبارہ منسوخ نہ کریں۔

صنفی تشدد اور بدسلوکی سے متاثرہ تمام خواتین کے لیے اس سائیٹ تک رسائی نہایت آسان رکھی گئی ہے۔

حال ہی میں دنیا بھر میں # می ٹو تحریک شروع ہونے کی وجہ سے ہراسانی کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔ خواتین کی بے تحاشا تعداد ہمت کر کے آگے بڑھی ہے اور انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ایسے واقعات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

می ٹو تحریک نے صنفی تشدد اور ہراسانی کے واقعات میں خواتین کی گواہی اور ان پر بیتی کہانیوں کے لیے دروازے وا کر دیے ہیں۔  اسی کی وجہ سے پاکستان میں ہمیں مسئلے کی سنجیدہ نوعیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

فی الحال اس ویب سائیٹ پر پاکستان بھر سے 42 وکیل موجود ہیں جن میں سے 26 وکیل خواتین ہیں۔ اس پورٹل پر ذہنی صحت کی مشاورت کے لیے بھی وسائل فراہم کرنے کا دعوی کیا گیا ہے.

انڈپینڈنٹ اردو نے جب مذکورہ ویب پورٹل https://abaurnahin.pk/  کا جائزہ لیا تو وہاں موجود کسی بھی وکیل کے نام کے سامنے اس کا فون نمبر موجود نہیں تھا۔ وہاں صرف ایک جگہ مختص کی گئی تھی جہاں اپنی شکایت لکھی جا سکتی ہے۔ فون پر رابطہ ان وکلا سے کرنا فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ فون پر بات کرنے کے لیے ویب سائٹ پر صرف ایک سیکشن میں فون نمبر موجود ہیں، زیادہ تر جگہوں پر لکھ کر شکایت درج کروانا لازم ہے۔ فون نمبروں کی فراہمی صرف 'سپیک ٹو اے کاؤنسلر' والے سیکشن پر ہی کلک کرنے سے ممکن ہے۔

اس ویب سائیٹ کے بارے میں ماہر ماحولیات مہوش رحمان علوی کا مزید کہنا تھا: 'عام طور پر یہ بات بہت آسان سمجھی جاتی ہے کہ آپ اپنا منہ بند رکھیں اور کوئی بات بھی نہ کریں۔‘

 لیکن بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آپ کے دماغ میں تروتازہ رہتے ہیں اور آپ کی شخصیت کے بگاڑ میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ می ٹو مہم نے ہمیں بنیادی طور پر معاشرے میں موجود اس بگاڑ کو اچھے طریقے سے جاننے میں مدد دی ہے۔

مردوں کو حقیقت میں ان چیزوں کا ذمہ دار ضرور ٹھہرایا جانا چاہیے اور انہیں اپنی کسی بھی حرکت کے لیے واضح طور پر قابل احتساب ہونا چاہیے۔

مردوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ انہیں دفتروں اور گھر میں خواتین سے کس طریقے سے بات کرنی ہے، اور انھیں اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ اگر خواتین کسی بات سے انکار کریں تو ایک بار 'نہیں' کہہ دینے کا مطلب واضح طور پر 'نہیں' ہوتا ہے۔‘

ظل ہما جو بہاالدین ذکریا یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ ویب سائٹ بہت اہم مقاصد کو پورا کرتی ہے۔

خواتین پر ہونے والے ظلم و تشدد اور ان کی ہراسیت کے خلاف یہ ایک اہم قدم ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ایسی ویب سائٹ صرف ایک نہیں بلکہ دس پندرہ ہونی چاہییں اور بازاروں میں ہر دکان کے باہر ایسی ویب سائٹ کا پتہ درج ہونا چاہیے، تاکہ خواتین کو ان کا پتہ زبانی یاد ہو سکے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین