ہیوسٹن میں مودی جلسہ اور پاکستانیوں کی بھرپور مقابلے کی تیاری

امریکی ریاست ٹیکساس کے سب سے گنجان آباد شہر ہیوسٹن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’مقابلے‘ اور ’مات‘ کا ماحول 5 اگست کے بعد بننا شروع ہوا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خود مختاری کو منسوخ کیا گیا۔

’صرف یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے دمیان ایک قسم کا بڑا مقابلہ ہے۔ ایسا سٹیج بنا ہوا ہے کہ اس وقت کون کس کو مات دیتا ہے۔‘ یہ کہنا ہے پاکستانی نژاد امریکی شہری تسلیم صدیقی صدیقی کا جو چودہ سال سے پی اے جی ایچ (پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹر ہیوسٹن) سے منسلک ہیں اور چار سال ایسوسی سی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔

وہ ایسوسی ایشن کی جانب سے ’واپس جاؤ مودی‘ کے عنوان سے چلنے والی احتجاجی مہم میں شریک ہیں جس کا مقصد ہیوسٹن میں بھارتی وزیراعظم کے جلسے کے انعقاد کی مذمت کرنا ہے۔ اس احتجاج میں مقامی سکھ کمیونٹی بھی پاکستانیوں کے ہمراہ ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے سب سے گنجان آباد شہر ہیوسٹن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’مقابلے‘ اور ’مات‘ کا ماحول 5 اگست کے بعد بننا شروع ہوا جب وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کو آئین کے تحت خودمختار رکھنے والا آرٹیکل 370 منسوخ کر دیا۔

ہیوسٹن کے بھارتی نژاد امریکی شہریوں نے وزیراعظم مودی کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک آئیں تو ہیوسٹن میں بھی جلسۂ عام کریں۔ شہر کے این آر جی سٹیڈیم میں جلسے کے لیے 22 ستمبر کی تاریخ مقرر ہوئی اور اسے #Howdy Modi  (ہاؤڈی مودی) کا نام دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب یہ جلسہ تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ بھارت اور امریکہ کے لیڈر امریکی سرزمین پر ایک ہی سٹیج پر کھڑے ہو کر بھارتی نژاد شہریوں کے اجتماع سے خطاب کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی وزیراعظم مودی کے جلسے میں شریک ہوں گے۔

پاکستانیوں اور سکھوں کی نمائندہ تنظیموں نے بھی ہیوسٹن میں تاریخی احتجاجی مظاہرہ کرنے کی تیاریاں کر رکھی ہیں جو این آر جی سٹیڈیم کے باہر کیا جا رہا ہے۔

پی اے جی ایچ کے موجودہ صدر ہارون شیخ کے مطابق ’یہ پرامن احتجاج ہے۔ کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف۔ دس سے پندرہ ہزار لوگ متوقع ہیں۔ احتجاج کے لیے جگہ ملی ہوئی ہے۔ ساری تیاریاں مکمل ہیں۔‘

منتظمین کا کہنا ہے کہ ٹیکساس سمیت دیگر امریکی ریاستوں سے پاکستانی اور سکھ برادریوں کے لوگ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ ڈیلّس سمیت گردونواح کے شہروں سے مظاہرین کو لانے کے لیے مفت بسیں چلائی جا رہی ہیں۔

رائے عامہ ہموار کرنے اور مظاہرے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے سکھ اور پاکستانی برادریوں نے کئی ہفتوں تک عوامی آگاہی کی مہم چلائی۔ اس دوران ہیوسٹن کی گلیوں اور شاہراہوں پر چلنے والے ٹرالروں اور گاڑیوں پر کشمیر سمیت خالصتان کی آزادی کی تحریک کے جھنڈے بھی لہراتے دکھائی دیئے۔

کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ اور فرینڈز آف کشمیر نامی تنظیموں نے امریکی عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔

اس اتحاد کے وکیل گرپتونت سنگھ کے مطابق انہوں نے ’ہیوسٹن کی فیڈرل ڈسٹرکٹ کی عدالت میں نریندر مودی کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ ہمارے پاس سول کورٹ کی طرف سے مودی کی پیشی کے احکامات ہیں۔ مودی ہیوسٹن آئیں گے تو ہم یہ ان کے حوالے کریں گے۔‘

شہر کے سب سے بڑے اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ کے مطابق مقدمے کی تہتر صفحاتی درخواست میں بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ اور بھارتی فوج کے لفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلن کے نام بھی شامل ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ مقدمے میں امریکہ کے لیے وفاقی حکومت کے 1991 کے ایکٹ کا سہارا لیا گیا ہے جو امریکی سرزمین پر ان غیر ملکی عہدیداروں کے خلاف مقدمات کی اجازت دیتا ہے جن پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے شبہات ہوں۔

اخبار کے مطابق 1992 میں اسی قانون کے تحت میسی چیوسٹ میں ایک خاتون کی درخواست گوئٹے مالا کے وزیردفاع کو پچاس لاکھ ڈالر کے ہرجانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ