’کہیں نہیں جا رہے‘: ٹک ٹاک کی امریکی آپریشنز فروخت کرنے کی تردید

ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ ایک نئے خریدار کی تلاش میں ہے۔

14 مارچ، 2024 کو شنگھائی میں ایپلائینس اینڈ الیکٹرانکس ورلڈ ایکسپو کے دوران ایک شخص ٹک ٹاک بوتھ کے پاس سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

مختصر ویڈیوز کی چینی سٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک نے، ان افواہوں کے دوران کہ اس کے امریکی آپریشنز فروخت کیے جا سکتے ہیں، کہا ہے کہ ’وہ کہیں نہیں جا رہے۔‘

امریکہ نے رواں ہفتے ایک نیا قانون پاس کیا تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کی بانی کمپنی بائٹ ڈانس کو ملک میں اپنے آپریشنز بیچنے یا بصورت دیگر پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ٹک ٹاک نے فوری طور پر پابندی کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔

اس سے قبل کئی ایسی رپورٹس تیزی سے سامنے آئی تھیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چینی پیرنٹ کمپنی اپنے امریکی آپریشنز کو ملک میں قائم کسی اور کمپنی کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔

جریدے ’دا انفارمیشن‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ (چینی پیرنٹ کمپنی) اپنے کاروبار کو فروخت کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے، تاہم ایسا الگورتھم کے بغیر کیا جا رہا ہے جو ویڈیوز تجویز کرتا ہے اور اسے اس کی کامیابی کے مرکزی حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن بائٹ ڈانس نے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوٹیاؤ‘ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ اس کا ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔

اس سے قبل کمپنی نے اشارہ دیا تھا کہ اسے یقین ہے کہ پابندی خود بخود غیر موثر ہو جائے گی۔

چینی کمپنی کے سی ای او شو زی چیو نے ایک ویڈیو میں کہا: ’یقین رکھیں، ہم کہیں نہیں جا رہے ہیں۔‘

کمپنی سربراہ کا یہ ویڈیو بیان صدر بائیڈن کے اس بل پر دستخط کرنے کے چند لمحوں بعد پوسٹ کیا گیا جس میں بائٹ ڈانس کو ٹک ٹاک کے امریکی اثاثوں سے دست بردار ہونے یا بصورت دیگر پابندی کا سامنا کرنے کے لیے 270 دنوں کا وقت دیا گیا ہے۔

چینی سی ای او نے مزید کہا کہ ’حقائق اور آئین ہمارے ساتھ ہیں اور ہم دوبارہ غالب آنے کی امید کرتے ہیں۔‘

صدر بائیڈن کے دستخط کے بعد فروخت کی ڈیڈ لائن آئندہ سال 19 جنوری کو، یعنی ان کی مدت صدارت سے ایک دن پہلے، ختم ہو گی لیکن اگر وہ (امریکی انتظامیہ) یہ طے کرتے ہیں کہ بائٹ ڈانس پیش رفت کر رہا ہے تو وہ ڈیڈ لائن کو تین ماہ تک بڑھا سکتے ہیں۔

جو بائیڈن کا صدارتی انتخابات کی دوڑ میں اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے مقابلہ ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے منگل کو کہا کہ ہم (ٹک ٹاک پر) پابندی نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ محض چین کی ملکیت کے بارے میں ہے۔‘

2020 میں امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کو ٹک ٹاک اور چینی ملکیت والی ٹین سینٹ کے یونٹ ’وی چیٹ‘ پر پابندی لگانے کی کوشش سے روک دیا تھا۔

ری پبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ نے اپنا ارادہ تبدیل کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ بائیڈن ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ووٹروں سے نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر پابندی لگائی گئی تو وہ ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

بائٹ ڈانس کے سی ای او نے کہا: ’کوئی غلطی نہ کریں، یہ ٹک ٹاک پر پابندی ہے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ٹک ٹاک کام جاری رکھے گا کیونکہ کمپنی نے پابندیوں کو چیلنج کیا ہے۔

بہت سے ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا کسی ممکنہ خریدار کے پاس ٹک ٹاک خریدنے کے لیے مالی وسائل ہیں اور کیا چین اور امریکی حکومتی ایجنسیاں اس فروخت کی منظوری دیں گی؟

امریکی قانون سازوں میں بڑے پیمانے پر تشویش کی وجہ یہ ہے کہ چین امریکیوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یا ایپ کے ذریعے ان کا سروے کر سکتا ہے۔

یہ بل منگل کی شب امریکی سینیٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کیا جب کہ امریکی ایوان نمائندگان نے ہفتے کو اس کی منظوری دی تھی۔

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں ٹک ٹاک پر چار سالہ جنگ ایک اہم محاذ ہے۔

گذشتہ ہفتے ایپل نے کہا کہ چین نے اسے قومی سلامتی کے خدشات پر ملک میں اپنے ایپ سٹورز سے میٹا پلیٹ فارمز کے واٹس ایپ اور تھریڈز کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔

ٹک ٹاک امریکی آئین کی ’پہلی ترمیم‘ کی بنیاد پر بل کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہے اور ٹک ٹاک صارفین بھی دوبارہ قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔

نومبر میں مونٹانا میں ایک امریکی جج نے آزادی رائے کی بنیادوں کا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک پر ریاستی پابندی کو روک دیا تھا۔

سماجی تنظیم ’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ نے کہا کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانا یا اسے تقسیم کرنے کی ضرورت ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومت کے حد سے زیادہ کنٹرول کے لیے ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرے گی۔‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بائٹ ڈانس ایپ سے دستبردار ہونے میں ناکام رہتا ہے تو نئی قانون سازی سے بائیڈن انتظامیہ کو ٹِک ٹاک پر پابندی لگانے کے لیے ایک مضبوط قانونی بنیاد ملنے کا امکان ہے۔

اگر بائٹ ڈانس ٹک ٹاک سے دستبردار ہونے میں ناکام رہا تو، ایپل، ایلفابیٹ، گوگل اور دیگر ایپ سٹورز قانونی طور پر ٹک ٹاک کو ہٹانے پر مجبور ہو سکتے یا بائٹ ڈانس کے زیر کنٹرول ایپلی کیشنز یا ٹک ٹاک کی ویب سائٹ کو ویب ہوسٹنگ سروسز فراہم نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر لافونزا بٹلر نے وائٹ ہاؤس پر زور دیا کہ وہ ٹک ٹاک کے آٹھ ہزار امریکی ملازمین کا تحفظ کریں جن میں سے اکثر نیویارک یا کیلی فورنیا میں ہیں۔

بٹلر نے بائیڈن کو ایک خط میں بتایا کہ ’ہمیں ٹِک ٹاک کے ملازمین اور اپنی مقامی معیشتوں پر پڑنے والے اثرات کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے آگے کی راہ کا تعین کرنا ہے۔‘

یہ بل وائٹ ہاؤس کو دیگر غیر ملکی ملکیتی ایپس کی فروخت پر پابندی لگانے یا اسے سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے کے لیے نئے ٹولز بھی فراہم کرے گا۔

ڈیموکریٹک سینیٹر رون وائیڈن نے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ یہ بل ’وسیع اختیار فراہم کرتا ہے جسے مستقبل کی انتظامیہ امریکیوں کے ’پہلی ترمیم‘ سے حاصل حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔‘

مہم کے ایک اہلکار نے بدھ کو بتایا کہ بائیڈن کی انتخابی مہم ٹک ٹاک کا استعمال جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ٹرمپ کی مہم ٹک ٹاک کی بحث میں شامل نہیں ہوئی۔

صدر بائیڈن نے 2022 کے آخر میں ایک ایسے ہی قانون پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکی سرکاری ملازمین کو سرکاری فون پر ٹک ٹاک استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی