ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

حکومت پائیڈ پائپر کا روپ دھارے روٹی، کپڑا، مکان، احتساب کی شہنائیاں بجاتی ہے اور بائیس کروڑ لوگ آنکھیں بند کیے، سوچے سمجھے بغیر پیچھے چلتے چلتے کھائی میں جا گرتے ہیں۔

اشرف المخلوقات کے نام پر اسفل المخلوقات انسان جس نے انسانیت نام کے لفظ کو ضمیر کا کفن چڑھا کر احساس کی قبر میں گاڑ دیا (اے ایف پی)

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں۔ ہم وہ جانور ہیں جنہوں نے پھاڑ کھانے والے اپنے دانت مسوڑھوں میں چھپا رکھے ہیں۔ اپنے نوکیلے پنجوں کو ہاتھوں کی انگلیوں کی شکل دے رکھی ہے۔ ہماری آنکھوں میں ہوس کی بھوک ناچتی ہے اور ناک شکار کی بو سونگھتی ہے۔

ہر راستے، گلی میں گھات لگائے ہم دو پیروں کے جانور اس شکار کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر بھنبھوڑ کھاتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا اس بار پھر سے اپنے کالم میں کشمیر کے بچوں کے مصائب پڑھے جائیں۔ ان کی مصیبتوں کا نوحہ پھر دنیا کو سنایا جائے، لیکن جب قلم اٹھایا تو اس کی روشنائی سیاہی بن گئی۔ الفاظ گوشت کے لوتھڑوں کا روپ لے کر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے۔

کیا کروں! قصور کے بچوں کا ماتم کروں؟ میرپور خاص کے بچے کی ماں کی بےکسی کو پتھرائے دل سے دیکھوں؟ گھوٹکی کی ہنستی مسکراتی نمرتا کو سسک سسک کر موت کے منہ میں جانے کا تماشا دیکھوں، کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟

اشرف المخلوقات کے نام پر اسفل المخلوقات انسان جس نے انسانیت نام کے لفظ کو ضمیر کا کفن چڑھا کر احساس کی قبر میں گاڑ دیا۔ قصور کے تین معصوم بچوں کا کیا قصور تھا، انہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ ڈھائی ماہ پہلے آٹھ سے بارہ سال کے چار بچے گھر سے باہر نکلے اور پھر گھر واپس آنا نصیب نہ ہوا۔

بدنصیب ماں باپ گلی گلی محلہ محلہ اپنے بچوں کو آوازیں دیتے رہے، لیکن کہیں سے ’آیا امی‘ کی صدا نہ ابھری۔ انصاف کی دہائی دے دے کر قانون کا دروازہ بجاتے رہے لیکن طاقتور کے دربار کے درباری بنے قانون کے نام نہاد محافظوں کے کانوں پر پردہ پڑگیا۔

چھپن چھپائی کھیلنے والے تین معصوموں کو انسانی شکل کے بھیڑیوں نے نوچ کھایا۔ ڈھائی ماہ بعد ایک بچے کی لاش اور دو کے اعضا ریت کے ٹیلوں میں دبے ہوئے ملے۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ٹکڑوں میں دیکھ کر ماں ہوش کھو بیٹھی باپ سکتے میں آ گیا۔

رونے پِیٹنے نے جنون کی شکل اختیار کی اور غصے کی آگ سے سڑکوں کا تارکول پگھلا تو پنجاب کے راجہ اِندر نے نوٹس لینے کا شوق پورا کرلیا۔ اندھا، گونگا اور بہرا قانون بھی نوٹس ناٹک کے بعد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

پھر وہی جیو فینسنگ کے ڈرامے، ڈی این اے ٹیسٹ کے کھوکھلے دعوے۔ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ڈھکوسلے شروع ہوگئے۔ سرچ آپریشن کے نام پر آگے، پیچھے، دائیں، بائیں گھومنا شروع کر دیا، لیکن کہیں سے شرم سے ڈوب مرنے کو چلو بھر پانی نہ ملا۔

جنوری 2018 میں زینب قتل کیس سامنے آنے کے بعد یہ ثابت ہوگیا تھا کہ انسانی کھال میں چھپے شکاری کتوں کی تھوتھنیوں کو خون لگ چکا ہے لیکن کسی نے بھی ایک مجرم کو پھانسی چڑھا کر باقیوں کو پٹہ ڈالنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون کا آہنی ہاتھ موم کا گڈا بن کر رہ گیا۔ ڈیڑھ سال بعد چند اور درندے وحشت کا ناچ دکھا کر قانون، سماج اور سرکار سب کو بے لباس کر گئے۔

معلوم نہیں پطرس بخاری مرحوم نے کن کتوں کے بارے میں کہا تھا کہ جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ یہاں تو پاگل کتے بھونک بھونک کر اپنا زہر نسوں میں اتار دیتے ہیں اور دو بوند ویکسین کے لیے عوام کہلانے والے کیڑے مکوڑے ترستے پھرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی اولادیں ماؤں کی گودوں میں تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں اور اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والوں کو یہ چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ یہ لوگ کس طرح اپنے بستروں پر آرام کی نیند سو جاتے ہیں۔ کوئی احساس کچوکے نہیں لگاتا۔ کبھی ضمیر نام کا مردہ خواب میں آ کر نہیں ڈراتا۔

غریب، بےبس بےوقعت دو وقت کی روٹی کو ترستے ایک خاندان کے تین جنازے میر پورخاص سے بھی اٹھے، جہاں بیٹے کی موت سے بےحال باپ اور چچا کو ہسپتال کے نام پر قصاب خانے نے ایمبولینس دینے سے انکار کر دیا۔

جیب میں کل ملا کر تین سو روپے اور تقاضا دو ہزار کا تھا۔ ہاتھ جوڑتے، گڑگڑاتے، آنسو بہاتے باپ کو دیکھ کر کسی کا دل نہ پھٹا۔ پھر آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب دس سال کے بچے کی اکڑی ہوئی لاش کا بوجھ موٹر سائیکل سہار نہ پائِی اور جنہوں نے کندھا دینا تھا وہ خود چار کندھوں پر سوار ہو کر اس زندگی کو ہی الوداع کہہ گئے۔ یہاں بھی کردار مختلف لیکن ڈرامے بازی پرانی۔

نوٹس لیے گئے، ذمہ داروں کو معطل کرنے کی سفارشات کے پھٹے ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر گھومے اور گھوم گھوم کر ٹھنڈے پڑ گئے۔ سندھ حکومت کی گڈ گورننس کے غباروں سے ہر روز ہوا نکلتی ہے۔

کبھی آوارہ کتا کاٹ کھاتا ہے، کبھی پنکھے سے لٹکتی نمرتا ناانصافی کی چتا میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے، غم سے نڈھال بھائی دہائیاں دیتا رہ جاتا ہے کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ سفاک قتل ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ خودکشی کا راگ الاپتی رہتی ہے، سوال پوچھنے والوں کو تھپڑ دے مارتی ہے۔ قانون ڈی این اے ٹیسٹ، بیانات، کیمیائی اجزا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے انتظار میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا ہے۔

حکومت پائیڈ پائپر کا روپ دھارے روٹی، کپڑا، مکان، احتساب کی شہنائیاں بجاتی ہے اور بائیس کروڑ لوگ آنکھیں بند کیے، سوچے سمجھے بغیر پیچھے چلتے چلتے کھائی میں جا گرتے ہیں۔ عوام کو بےسروپا مزاق کے پیچھے لگا کر یہی ووٹ لینے والی سرکار خود الزامات کی سیاست پر سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے پانسے اوپر نیچے دائیں بائیں گھماتی ہے۔ 

لیکن ایک بات جو شاید ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں ننانوے کے ہندسے پر بھی ایک سانپ لپلپاتی زبان لیے بیٹھا ہے جو اگر ڈس لے تو کھیل صفر سے شروع ہوتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ