بھارتی سیاستدانوں سمیت مختلف افراد کی چار ہزار سے زائد خفیہ ویڈیوز

بھارتی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی ان ویڈیوز اور تصاویر کو منظر عام پر آنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہیں۔

شویتا جین مبینہ طور پر اس سکینڈل کی ماسٹر مائنڈ ہیں۔(سوشل میڈیا)

جب اندور میونسپل کارپوریشن کے ایک انجینئر ہربھجن سنگھ نے 17 ستمبر کو مدھیا پردیش کے پالاسیا پولیس سٹیشن میں شکایت درج کروائی تھی کہ انھیں لڑکیوں کا ایک گینگ بلیک میل کر رہا ہے تو وہ اس وقت اس ’گھناؤنے‘ سلسلے سے واقف نہیں تھے جسے بھارت کی تاریخ کا ’سب سے بڑا‘ سیکس سکینڈل قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارتی ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہربھجن سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں 29 سالہ آرتی دیال نامی خاتون کے ذریعے بلیک میل کیا جا رہا ہے جس نے ان سے تین کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ بصورت دیگر ان کی قابل اعتراض ویڈیو پھیلانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق بھوپال سکینڈل کی مبینہ ماسٹر مائنڈ شویتا سواپنل جین سمیت پانچ خواتین اور ایک شخص کو اب تک اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جب کہ کم از کم دو گرفتار خواتین کے وکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مقدمہ من گھڑت ہے۔ ایک نے تو پولیس کی تحویل میں تشدد کا الزام بھی لگایا ہے۔

ادھر مدھیا پردیش ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں اس معاملے کی مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کی تفصیلات مدھیا پردیش کی سیاست میں ہنگامہ برپا کر دیں گی جہاں بی جے پی اور کانگریس کے کئی بڑے نام بھی اس سکینڈل سے جڑے ہوئے ہیں۔

دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ’ہنی ٹریپ‘ کا سلسلہ 2017 سے شروع ہوا جب ساگر ضلع سے تعلق رکھنے والی ایک 39 سالہ سویتا وجئے جین (جو شویتا سواپنل جین نہیں ہیں) کی ایک سیکس ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔ شویتا وجئے جین نے ایک این جی او بورڈ ممبر کی حیثیت سے 2006 سے 2014 تک خدمات انجام دیں تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلد ہی اسی نوعیت کی دیگر ویڈیوز بھی منظر عام پر آنے لگیں۔ 2019 میں سامنے آنے والی ویڈیوز میں سینیئر سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بزنس ٹائیکونز کے نام بھی شامل تھے۔

اب تک کی تحقیقات کے حوالے سے پولیس ذرائع نے دی پرنٹ کو بتایا ہے کہ اس گروہ کی خواتین سرکاری ملازمین اور پولیس اہلکاروں سے رابطے استوار کرتی تھیں اور بعد میں ان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو جنسی تعلقات اور ان کی ویڈیو ریکارڈنگ تک جا پہنچتا۔ اس مقصد کے لیے ایک عالیشان کلب یا لگژری ہوٹل میں کمرے بک کرائے جاتے تھے۔

اس سکینڈل کی تحقیقات فی الحال پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کر رہی ہے جو گذشتہ ہفتے ریاستی حکومت نے تشکیل دی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کو ان گرفتار خواتین کے لیپ ٹاپ سے 96 ویڈیوز ملی ہیں۔

بھارتی میڈیا کی دیگر رپورٹس کے مطابق خواتین کے اس گروہ نے سیاست دانوں، تاجروں اور سرکاری ملازمین کی ایک ہزار قابل اعتراض ویڈیوز ریکارڈ کی تھیں تاہم تحقیقات کے بعد اب انکشاف ہوا ہے کہ ایسی ویڈیوز کی تعداد چار ہزار سے بھی زیادہ ہے۔

ان رپورٹس کے مطابق یہ گینگ اس مقصد کے لیے غریب اور متوسط گھرانوں کی نوجوان لڑکیوں کو اپنے گروہ میں شامل کرتا تھا۔ اس کے علاوہ خوبرو اور کالج میں زیر تعلیم لڑکیوں کو پرتعیش زندگی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر انہیں وزرا سمیت سیاسی شخصیات، سینیئر بیوروکریٹس، بڑے سرمایہ دار اور بااثر ترین شخصیات کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے اور پھر ریکارڈ کی گئی ویڈیوز کے ذریعے ان کو بلیک میل کرنے کا ہدف دیا جاتا تھا۔

اس سکینڈل میں بڑے بڑے سیاست دانوں اور بااثر افراد کا نام سامنے آنے کے بعد ان  ہائی پروفائل شخصیات کی قابل اعتراض تصاویر، ویڈیوز اور چیٹنگ کا ریکارڈ چھپایا جا رہا ہے اور چند ایک ہی لوگوں کی اس مواد تک رسائی ہے۔ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی ان ویڈیوز اور تصاویر کو منظر عام پر آنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہیں۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں سہولت کاری کے حوالے سے پولیس افسران کے علاوہ صحافی بھی ملوث ہیں جن میں قومی اخبارات کے ایڈیٹرز اور ایک نجی ٹی وی چینل کا مالک بھی شامل ہے۔

بھارتی اخبار انڈیا ٹو ڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانزک ماہرین گرفتار افراد کے لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کے میموری کارڈز سے وہ مواد بھی ریکور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو ڈیلیٹ کیا جا چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا