پاکستان میں ایک حالیہ جائزے کے مطابق 2007 سے 2025 کے 18 سالوں میں دو کروڑ موٹر سائیکلیں خریدی گئیں۔ اس کے مقابلے میں گاڑیاں صرف 26 لاکھ فروخت ہوئیں، لیکن سڑکوں، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر بنانے کی منصوبہ بندی صرف گاڑیوں کو ہی ذہن میں رکھ کر کیوں کی جاتی ہے؟
اس لحاظ سے پاکستان میں ایک گاڑی کے مقابلے میں آٹھ موٹر سائیکلیں سڑکوں پر ہیں، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ تمام چھوٹی بڑی شاہراہوں کی تعمیر گاڑیوں کو ذہن میں رکھ کر کی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ہر سال موٹر سائیکل حادثات میں غیر معمولی اضافے کی ایک بڑی وجہ اسی سوچ کا فقدان ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں سال 2024 کے دوران چار لاکھ 25 ہزار سے زائد موٹر سائیکل سوار حادثات کا شکار ہوئے۔
لاہور کے رہائشی سنی مسیح کے چار بچے ہیں جو سب سکول جاتے ہیں۔ وہ خود 35 ہزار روپے تنخواہ پر نجی ملازمت کرتے ہیں۔ صبح سویرے بچوں کو سکول چھوڑنا اور چھٹی کے وقت واپس لانا ان کے معمول میں شامل ہے۔
بازار جانا ہو یا ہسپتال، خوشی ہو یا غمی ان کے پاس سفر کے لیے ایک ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل ہی ہے جو ان کا واحد سفری سہارا ہے۔
سنی مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میرے پاس ایک چائنہ کی موٹر سائیکل ہے جو پوری فیملی کے لیے نقل وحرکت کا واحد ذریعہ ہے۔ کم تنخواہ ہونے کی وجہ سے نئی تو کیا پرانی گاڑی خریدنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ اگر خرید بھی لیں تو اتنی چھوٹی گلیوں میں سے گزار کر گھر کیسے لائیں اور کہاں کھڑی کریں۔
’چار بچوں کو آگے پیچھے بٹھا کر ان کے سکول بیگ اپنے کندھوں پر ڈال کر گھر سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر سکول چھوڑتا ہوں۔ اس دوران شدید ٹریفک ہوتی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے نکال کر روڑ پر چڑھتے ہیں تو بڑی گاڑیوں اور بھاری ٹریفک سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
گاڑیوں والے موٹر سائیکل والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے ٹکر مار کر نکل جاتے ہیں۔
آخر موٹر سائیکل سواروں کی سنے کون اور ان کے ذہن میں اس کا حل کیا ہے؟ اس حوالے سے سنی کہتے ہیں: ’موٹر سائیکلوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے جس طرح فیروز پور روڈ پر ان کے لیے الگ لین بنائی گئی ہے، جس کا کسی حد تک فائدہ ہوا، لہذا الگ سے روڈ بنانے چاہییں تاکہ ہمیں کم از کم تحفظ تو رہے۔‘
تاہم موٹر سائیکل سواروں کو شکایت ہے کہ اس مخصوص لین میں بھی جگہ جگہ کٹ ہیں، جن کی وجہ سے بعض اوقات گاڑیاں وہاں آ جاتی ہیں۔
محکمہ پلاننگ ایند ڈویلپمنٹ کور کرنے والے سینیئر صحافی انصار زاہد کے بقول: ’ہمارے ہاں پہلے تو کئی کئی سال سڑکیں تعمیر ہی نہیں ہوتیں۔ اگر ہوتی بھی ہیں تو ٹھیکیداروں سمیت کئی لوگوں کا کمیشن ہوتا ہے، پورے فنڈز تعمیر پر خرچ نہیں ہوتے۔ اس کے بعد سرکیں بنائی جاتی ہیں تو صرف تعمیرات پر توجہ ہوتی ہے منصوبہ بندی یا مسائل پوری طرح حل کرنے پر نہیں۔ سب سڑکیں ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بنا دی جاتی ہیں۔
’بڑے شہروں میں تو رنگ سے لائنیں لگا دی جاتی ہیں چھوٹے شہروں میں تو نہ ون وے، نہ لائنیں، بس صرف سڑک اور ہر ٹریفک کے لیے دستیاب۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح جاپان، چین، سنگاپور سمیت یورپ کے کئی ممالک میں سڑکیں پوری منصوبہ بندی سے بنتی ہیں۔ موٹر سائیکل، سائیکل حتیٰ کہ پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، یہاں بھی ایسا ہو۔ ٹریفک میں اضافے اور حادثات کو روکنے کے لیے موٹر سائیکلوں کے لیے علیحدہ ٹریک بنا کر عمل درآمد کروانا ہی اس مسئلہ کا حل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیلپ پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق معاشی بدحالی کے پیش نظر ملک میں بہت سے لوگ نئی یا استعمال شدہ کاریں نہیں خرید سکتے، اس لیے وہ موٹر سائیکلوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 20 سال پہلے دس گھرانوں میں سے صرف ایک کے پاس موٹرسائیکل تھی۔
2019 تک یہ تعداد بڑھ کر دو میں سے ایک ہو گئی، کیونکہ موٹر سائیکلیں خریدنے اور چلانے میں گاڑی کے مقابلے میں بہت کم لاگت آتی ہے، ایندھن کی بچت ہوتی ہے، پارکنگ کے لیے جگہ کم چاہیے ہوتی ہے، لہذا اسے ترجیح دی جاتی ہے۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے پرہجوم شہروں میں موٹر سائیکل کا سفر کم خرچ اور جلدی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں کے علاوہ دور دراز دیہات میں بھی موٹر سائیکل بچوں کو سکول چھوڑنے، ہسپتال پہنچنے یا بازاروں اور دفاتر جانے کے لیے عام استعمال ہوتی ہے۔
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب بلال اکبر نے اندپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موٹر سائیکل سواروں کے لیے لاہور میں الگ گرین لاین بنا کر تجربہ کیا گیا ہے۔ اب پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی بہتر حکمت عملی سے موٹر سائیکلوں کے لیے الگ لائنز بنانے پر کام جاری ہے۔
’اس کے علاوہ موٹر سائیکل یا گاڑیوں کا رش سڑکوں سے ختم کرنے کے لیے اورنج لائن یا میٹرو بس کی طرز پر پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید اور نئے مزید منصوبے بھی تیار ہیں۔‘
مکس ٹریفک کے مسائل
پنجاب کی ایمرجنسی سروسزریسکیو 1122 پنجاب کے ریکارڈ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2022 میں صوبے بھر میں تین لاکھ 20 ہزار 579 حادثات رپورٹ ہوئے جبکہ گاڑیوں کے حادثات کی تعداد 42 ہزار 497 ہے۔ 2023 میں موٹر سائیکلوں کے حادثات کی تعداد تین لاکھ 69 ہزار 923 ہوئے اور گاڑیوں کے حادثات کی تعداد 43 ہزار 470 رہی۔
اسی طرح 2024 کے دوران موٹر سائیکل حادثات چار لاکھ 25 ہزار394 ہوئے جبکہ گاڑیوں کے 48 ہزار 346 حادثے رپورٹ ہوئے۔ رواں سال کے پہلے چار ماہ میں ہی موٹر سائیکلوں کے ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد جبکہ گاڑیوں کے 20 ہزاز سے زائد حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس ریکارڈ کے مطابق 2024 میں ایک سال کے دوران روزانہ ایک ہزار 164حادثات ہوئے جبکہ گاڑیوں کے اسی سال صوبے بھر میں روزنہ ایک سو 31 حادثات روزانہ کی اوسط سے رپورٹ پوئے۔
بیشتر حادثات ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے، وہ اس ریکارڈ کے علاوہ ہیں۔ لہذا گاڑیوں کی تعداد کم ہونے اور محفوظ ہونے سے حادثات کا تناسب بہت زیادہ نہیں بڑھا، لیکن موٹر سائیکلوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ اور غیر محفوظ سواری کی وجہ سے حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
لاہور کے رہائشی نوجوان حسیب حسن کچھ سال قبل حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ غلطی ان کی نہیں تھی لیکن سزا انہیں ہی ملی۔ وہ بتاتے ہیں: ’کچھ سال پہلے میرا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا تھا۔ اس دوران ایک ٹانگ کاٹنا پڑی۔ میں باربر کا کام کرتا ہوں سارا دن ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر کام کرنا پڑتا ہے۔
’اس حادثے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ ہماری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک میں آئے روز اس طرح کے حادثات موٹر سائیکل سواروں کی زندگیاں متاثر کر رہے ہیں۔ اس کے بعد نہ کوئی ادارہ پوچھتا ہے نہ ہی حکومت کوئی مدد کرتی ہے۔‘
مسائل میں اضافہ اور ان کا حل
موٹر سائیکلوں کی فروخت میں اضافے کے باوجود چوڑی سڑکیں، پارکنگ کی بڑی جگہیں اور ٹریفک سگنلز گاڑیوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے جانتے ہیں۔ اکثر موٹر سائیکلیں سڑک کے انتہائی دائیں کنارے چلائی جاتی ہیں لیکن ٹریفک کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ سڑک کے بیچ یا تیز لین میں چلاتے ہیں، جن سے حادثات رونما ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ٹریفک ماہرین کے مطابق زیادہ حادثات یوٹرن، چوراہوں یا موڑ پر پیش آتے ہیں۔
ٹریفک پولیس لاہور کی ٹیچنگ سربراہ فہمیدہ ذیشان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ موٹر سائیکلوں کی تعداد گاڑیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بے ہنگم ٹریفک میں حادثات بھی معمول ہیں، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
’موٹر سائیکل سوار خود بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔ ایک سائیڈ کی بجائے درمیان میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ یوٹرن لینے کی بجائے شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ون وے وے کی خلاف ورزی تو معمول کی بات ہے۔ موٹر سائیکل پر پیچھے دیکھنے کے لیے دونوں طرف شیشے نہین لگاتے۔ ٹو ویلر موٹر سائیکل ہونے کی وجہ سے، جہاں سے دیکھتے ہیں، مڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے حادثہ ہو جاتا ہے۔‘
گیلپ سروے کے مطابق جب ہزاروں بائیکس اور گاڑیاں ایک ہی تنگ لین مین چلتی ہیں تو ٹریفک افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے، جس سے تاخیر اور الجھن ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل کی مخصوص لین کے بغیر یہ کاروں، بسوں اور ٹرکوں کے درمیان چلتے ہیں جس سے حادثات کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
سڑکوں کو محفوظ بنانے کے لیے شہروں کو موٹر سائیکل کی صاف لین، دو پہیہ گاڑیوں کے لیے کمپیکٹ پارکنگ ایریاز اور سڑک کے نشانات کی ضرورت ہے جو کاروں اور بائیک دونوں کے لیے قابل عمل ہوں۔ دیہی علاقوں میں، بائیک کے ذریعے نقل و حمل قدرے آسان لیکن مشکل ہے۔ بہت سے گاؤں کی سڑکیں کچی، گڑھوں سے بھری ہوئی ہیں یا تیز بارش کے دوران وہاں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ ناقص پل اور تنگ سڑکوں کی وجہ سے جب بارش ہوتی ہے تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
منصوبہ بندی اور پالیسی کی سفارشات
حکومت پنجاب کی جانب سے فیروز پور روڑ پر چند کلومیٹر تک پوش ایریا میں موٹر سائیکل کے لیے پہلے سے موجود سڑک پر ہی گرین لین بنائی گئی۔ اسی سڑک پر شنگھائی برج کے نام سے موٹر سائیکلوں کے لیے اوور ہیڈ برج تعمیر کیا گیا ہے، جو یو ٹرن یا سڑک کراس کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن بیشتر موٹر سائیکل سوار اب بھی یہ استعمال نہیں کرتے۔
ٹریفک آفیسر فہمیدہ کے بقول: ’لاہور میں موٹر سائیکلوں کے لیے الگ لین کا تجربہ کامیاب رہا۔ اس سے حادثات مین بھی کمی آئی ہے، لیکن اب بھی بہت سے موٹر سائیکل سوار اس لین کو استعمال کرنے کی بجائے مین روڈ پر ہی بائیک چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
’ہم اداروں میں جا کر اور چوراہوں پر شہریوں کو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ٹریفک قوانین پر عمل کریں، موٹر سائیکل اپنی سائیڈ پر چلائیں۔ غلط پارکنگ اور ون وے کی خلاف ورزی نہ کریں، لیکن پھر بھی بہت سے لوگ عمل نہیں کرتے۔ ہمارے پاس صرف جرمانے کرنے کا آپشن تھا، اب ون وے کی خلاف ورزی پر پرچہ کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’چھوٹے چھوٹے بچے بہن بھائیوں کو موٹر سائیکل پر بٹھاتے ہیں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اسی طرح کئی خواتین بھی بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کر رہی ہوتی ہیں، جس سے حادثات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘
صوبائی وزیر بلال اکبر کے بقول: ’ہمارے ہاں موٹر سائیکلوں اور زیادہ گاڑیوں کی تعداد سڑکوں پر زیادہ ہونے کی بڑی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مکمل نظام نہ ہونا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کے تمام شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
’ہر شہر میں گرین لائن کی طرح موٹر سائیکلوں کے لیے الگ لائنز بنائی جائیں گی۔ سڑکوں پر رش کم کرنے کے لیے دنیا بھر کی طرح بڑے شہروں میں گاڑیوں کے داخلے پر ٹیکس لگانے کی سفارش کریں گے۔ لاہور سے راولپنڈی بلٹ ٹرین چلا رہے ہیں تاکہ باہر کے شہروں سے کم گاڑیاں لاہور آئیں۔‘
بلال کے بقول: ’یہ معاملہ فوری حل ہونے والا نہیں، اس کے لیے قلیل، وسط اور طویل مدتی پالیسیاں بنا رہے ہیں تاکہ سڑکوں سے رش کو کم سے کم کر دیا جائے۔ جس روٹ پر اورنج لائن، میٹرو بس اور الیکٹرک بسیں چلتی ہیں، ان روٹس پر ٹریفک کم ہوئی ہے۔‘
پاکستان میں جس تیزی سے موٹر سائیکلیں سڑکوں پر بڑی تعداد میں آ رہی ہیں، اس رفتار سے ان کے لیے منصوبہ بندی نہیں ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس رجحان کو تیزی سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔