صدر مملکت آصف زرداری نے جمعے کو کم عمری کی شادی کی ممانعت سے متعلق بل پر دستخط کر دیے، جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی قابلِ سزا جرم ہوگا۔
صدر کی توثیق کے بعد اب یہ باضابطہ قانون بن گیا ہے، جس کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہوگا۔
اس سے قبل یہ بل سندھ اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد صوبہ سندھ میں نافذالعمل ہے۔
اس بل کی توثیق کی خبر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے شئیر کی جبکہ ایوان صدر سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
کم عمری کی شادی کی ممانعت سے متعلق بل کی توثیق ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حالیہ دنوں میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے ’غیر اسلامی‘ قرار دیا اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے کئی علما نے صدر آصف زرداری سے بل پر دستخط نہ کرنے کی اپیل کی۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر ’سزائیں مقرر کرنے سمیت دیگر شقیں اسلامی احکام سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘
مجموعى طور پر كونسل نے اس بل کو شریعت سے متصادم قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
تاہم كونسل نے كم سنى كى شادىوں مىں مفاسد كى نشاندہى کر کے اس كى حوصلہ شكنى پر زور دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کم عمری کی شادی سے ممانعت کا یہ بل قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی جبکہ سینیٹ میں شیری رحمٰن کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
جب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا جا رہا تھا تو اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس کی مخالفت کی اور بعد ازاں انہی کی جماعت کے عطا الرحمٰن بھی اس بل کی مخالفت کرتے نظر آئے۔
بعد ازاں جے یو آئی ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر ایمل ولی خان نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم مغرب اور اسلام کے مقابلے کی بحث میں گھس گئے ہیں، شادی کا طے شدہ طریقہ بلوغت ہے۔‘
سینیٹ اجلاس کے دوران انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک والد مرنے کے قریب ہے اور کہے کہ وہ 15 سال کی بیٹی کی اپنی زندگی میں شادی کروا دے۔ لڑکی، ماں، لڑکا اور نکاح خواہ راضی ہوں گے مگر شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ قانون اجازت نہیں دیتا۔
’آپ وہاں قانون لائیں جہاں زبردستی کی شادی ہو رہی ہے۔ ہمارا مذہب بہت لبرل ہے، ہمیں مغربی دنیا کو فالو نہیں کرنا چاہیے، جب میاں بیوی راضی تو کس کام کا قاضی۔‘
کم عمری کی شادی سے ممانعت کا بل کیا ہے؟
پارلیمان سے منظور کردہ ’کم عمری کی شادی کی ممانعت‘ کے بل میں بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی ہے۔
بل کے مطابق: ’نکاح خواں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں ایک یا دونوں فریق 18 سال سے کم عمر ہوں، نکاح خواں یقینی بنائے گا کہ دونوں فریقین کے پاس نادرا کا شناختی کارڈ موجود ہو، جس پر ان کی تاریخ پیدائش درج ہوگی۔‘
بل میں کہا گیا کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔
بل کے مطابق: ’18 سال سے بڑی عمر کا مرد اگر بچی سے شادی کرتا ہے تو اسے تین سال تک قیدِ بامشقت ہوگی اور 18 سال سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا اور جو شخص کسی کم عمر دلہن یا دلہے کو ایسا کرنے پر مجبور کرے، اسے سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔‘
بل میں کہا گیا کہ اگر کوئی شخص بچے کی شادی کے ارادے سے ٹریفکنگ کرے تو اسے سات سال تک قید اور جرمانہ ہوگا اور جو شخص کم عمر بچے کی شادی میں معاونت کرے گا، اسے تین سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔
بل کے مطابق: ’اگر والدین یا سرپرست بچے کی کم عمری میں شادی کریں یا اسے روکنے میں ناکام رہیں تو انہیں تین سال تک قید با مشقت اور جرمانہ ہوگا اور اگر عدالت کو علم ہوا کہ کم عمر بچوں کی شادی کی جا رہی ہے تو وہ ایسی شادی کو روکنے کے لیے حکم جاری کرے گی۔‘
مزید کہا گیا کہ اس ضمن میں اگر عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی۔
بل کے مطابق کم عمر بچوں کی شادی کروانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا، جبکہ عدالت کیس کی کاروائی 90 روز میں مکمل کرے گی۔