کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل غیر اسلامی ہے: اسلامی نظریاتی کونسل

منگل کو اسلام آباد میں چیئرمین ڈاکٹر علامہ محمد راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں حالیہ دنوں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کردہ ’کم سنی کی شادی کے امتناع‘ کے بل کو غیر اسلامی قرار دے دیا گیا ہے۔

(اسلامی نظریاتی کونسل ویب سائٹ)

اسلامی نظریاتی کونسل نے منگل کو اسلام آباد منعقدہ اجلاس میں کم سنی کی شادی کے امتناع/کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت سے متعلق بل کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔

کونسل نے صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کا کم عمری کی شادی کا ’امتناع ازدواج اطفال‘ بل بھی مسترد کر دیا ہے، اور اسے شریعت سے متصادم قرار دیا ہے۔ جب کہ نکاح سے قبل تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کے بجائے اختیاری رکھنے کی سفارش کی ہے۔ 

منگل کو اسلام آباد میں چیئرمین ڈاکٹر علامہ محمد راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں حالیہ دنوں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کردہ ’کم سنی کی شادی کے امتناع‘ کے بل کو غیر اسلامی قرار دے دیا گیا ہے۔ کونسل نے کہا ہے کہ شادی کے لیے ’عمر کی حد مقرر کرنا شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔‘

اجلاس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں 18 سال سے کم عمری کی شادی کو زیادتی/چائلڈ ابیوز قرار دیا گیا ہے۔ اس پر ’سزائیں مقرر کرنے سمیت دیگر شقیں بھی اسلامی احکام سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مجموعی طور پر کونسل نے اس بل کو مسترد کیا ہے۔‘

رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی کی جانب سے پیش کردہ ’کم سنی کی شادی کے امتناع کا بل‘ کو کونسل نے شریعت سے متصادم قرار دیا ہے، تاہم ’کونسل نے کم سنی کی شادیوں میں مفاسد کی نشاندہی کر کے اس کی حوصلہ شکنی پر زور دیا۔‘

اعلامیے کے مطابق ’اس بل کو پارلیمان کی طرف سے کونسل کو ریویو کرنے کے لیے ارسال نہیں کیا گیا۔‘

کم عمر بچوں کی شادی سے ممانعت کا بل ہے کیا؟

پارلیمان سے منظور کردہ ’کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت‘ کے بل میں بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی ہے۔

بل کے مطابق ’نکاح خواں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں ایک یا دونوں فریق 18 سال سے کم عمر ہوں، نکاح خواں یقینی بنائے گا کہ دونوں فریقین کے پاس نادرا کا شناختی کارڈ موجود ہو جس پر ان کی تاریخِ پیدائش درج ہوگی۔‘

بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال تک قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکے گا۔

بل کے مطابق ’18 سال سے بڑی عمر کا مرد اگر بچی سے شادی کرتا ہے تو اسے تین سال تک قید بامشقت ہو گی اور 18 سال سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا۔ اور جو شخص کسی کم عمر دلہن یا دلہے کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا اسے سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔‘

بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بچے کی شادی کے ارادے سے ٹریفکنگ کرے تو اسے سات سال تک قید اور جرمانہ ہوگا اور جو شخص کم عمر بچے کی شادی میں معاونت کرے گا اسے تین سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔

بل کے مطابق ’اگر والدین یا گارڈین بچے کی کم عمری میں شادی کرے یا اسے روکنے میں ناکام رہے تو اسے تین سال تک قید بامشقت اور جرمانہ ہوگا، اور اگر عدالت کو علم ہو کہ کم عمر بچوں کی شادی کی جا رہی ہے تو وہ ایسی شادی کو روکنے کے لیے حکم جاری کرے گی۔‘

اس ضمن میں اگر عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی، جبکہ کم عمر بچوں کی شادی کروانے کا جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا۔ نیز عدالت کیس کی کارروائی 90 روز میں مکمل کرے گی۔

دوسری جانب اجلاس میں ’عدالتی فیصلوں کی ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ‘ پر بھی گفتگو ہوئی اور کونسل نے عدالتی فیصلوں کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ پر تشویش کا اظہار کیا۔

اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ ’یہ معاملہ عدالتی خلع سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے تناظر میں زیرِ بحث آیا۔‘

بدسلوکی کی صورت میں بیوی خلع لینے پر حق مہر کی حقدار

کچھ روز قبل لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ’خاتون کے ساتھ شوہر کی بدسلوکی کرنے پر خلع لینے سے وہ حق مہر کی حقدار رہتی ہے‘ کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خلع کی صورت میں خواتین کے حقِ مہر کے حوالے سے اصول واضح کیے گئے۔

جسٹس راحیل کامران کی جانب سے لکھے گئے فیصلے کے مطابق ’اگر کوئی خاتون شوہر کی بدسلوکی پر خلع لے تو حقِ مہر کی حقدار رہتی ہے۔ اگر خاتون صرف ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع لے تو پھر حقِ مہر کی حقدار نہیں رہتی۔‘

جسٹس راحیل کامران نے شہری آصف محمود کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے خلع کے باوجود بیوی کو دو لاکھ حق مہر دینے کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے شہری کی ’ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد‘ کی تھی۔

عدالت نے کہا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کا شخص بیٹیوں کا جہیز دیتا ہے جو کہ گہرا رواج بن چکا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت شوہر پر حقِ مہر اس وقت تک واجب ہے جب تک کہ بیوی اس کی جانب سے خلع کی درخواست نہ کرے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’موجودہ کیس میں خاتون نے اپنے شوہر کی طرف سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابلِ اعتماد ثبوت فراہم کیے۔ جب تک اس معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کی قانونی بنیاد نہ ہو، شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔ اور جب بیوی اس بنیاد پر خلع طلب کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو وہ اپنا حقِ مہر کا حق کھو دیتی ہے۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر شوہر کا طرزِ عمل بیوی کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے تو اس کا حقِ مہر کا حق برقرار رہتا ہے۔ موجودہ کیس میں بیوی نے خلع کی بنیاد پر شادی توڑنے کا حکم نامہ حاصل کیا اور شوہر پر بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کے الزامات لگائے، اس کیس میں شادی نو سال تک برقرار رہی جو ثابت کرتی ہے کہ بیوی نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔‘

بعد ازاں عدالت نے ’بیوی کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے سامانِ جہیز اور حقِ مہر کی رقم دینے کا حکم دیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان