لاہور میں سجے مقابلہ حسن میں ’مس اور مسٹر پاکستان‘ کا انتخاب

اس مقابلے میں پاکستانی نژاد برطانوی ماڈل میا صدیق کو ’مس پاکستان‘ کا تاج پہنایا گیا جبکہ حسن عبدالله ’مسٹر پاکستان‘ کا خطاب حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

لاہور میں جمعے کو نجی شعبے کے زیرِ اہتمام ہونے والے ’مسٹر اینڈ مس پاکستان‘ مقابلے میں نہ صرف ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی خواتین نے بھی شرکت کی، جو عالمی سطح پر مقابلہ حسن میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں۔

لاہورکے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی تقریب میں معروف اداکارہ فرحانہ مقصود اور رہنما پیپلز پارٹی سید حسن مرتضیٰ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کر کے اس ایونٹ میں شریک مرد و خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔

اس مقابلے میں پاکستانی نژاد برطانوی ماڈل میا صدیق کو ’مس پاکستان‘ کا تاج پہنایا گیا جبکہ حسن عبدالله ’مسٹر پاکستان‘ کا خطاب حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایونٹ میں ’مس اینڈ مسٹر پاکستان‘ کے علاوہ  ڈاکٹر حفصہ احمد نے ’مس یونیورس‘ کا خطاب حاصل کیا جبکہ صبا چوہدری اور دعائے خدیجہ نے ’مس پاکستان سپریم‘ کا ٹائٹل حاصل کیا۔

’مس پاکستان‘ کا ٹائٹل حاصل کرنے والی حسیناؤں کا کہنا تھا کہ ایسے پلیٹ فارمز خواتین کو مزید مضبوط بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی آواز اور منصوبوں کو آگے بڑھا سکے۔

مقابلے میں منتخب ہونے والی ’مس پاکستان سپریم‘ کا خطاب حاصل کرنے والی سیدہ دعائے خدیجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’میں نے گریجویشن کی ہے اور پھر اس مقابلے میں حصہ لیا، یہاں منتخب ہونے پر بہت خوشی ہوئی ہے۔

’میرا مقصد عالمی سطح پر حسن کے مقابلوں میں حصہ لے کر ملک کا نام منوانا ہے۔‘

پشاور سے تعلق رکھنے والی دعائے خدیجہ نے مزید کہا: ’میں خوش نصیب ہوں کہ والدین نے یہ شوق پورا کرنے کی اجازت دی۔ صرف قابلِ اعتراض کپڑے پہننے سے منع کیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دیکھنے میں آسان لگتا ہے لیکن جب آپ کو اپنے مقابلے میں ٹیلنٹ دکھائی دیتا ہے تو اپنے آپ کو گروم کرنا چیلنج بن جاتا ہے کیوں کہ ہر لحاظ سے خود کو مینٹین کرنا پڑتا ہے۔‘

’مس اینڈ مسٹر پاکستان‘ کیسے منتخب ہوئے؟

اس ایونٹ کی آرگنائزر سونیا احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے مقابلہ حسن کے لیے مختلف کیٹیگریز بنائی ہوئی ہیں۔

’یہ پانچواں مقابلہ ہے۔ اس سے قبل جو یہاں منتخب ہوئے انہوں نے عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور ملک کا بہتر تاثر دنیا کو بتایا اور دکھایا۔‘

اس ایونٹ میں سلیکشن کے حوالے سے بتاتے ہوئے سونیا کا کہنا تھا: ’یہ کوئی فیشن شو نہیں، لیکن بظاہر نظر اسی طرح آتا ہے لیکن اس میں ڈیزائنرز کی کوئی مداخلت نہیں۔

’ ہم اپنے طور پر ویب سائٹ کے ذریعے اپلائی کرواتے ہیں اور پھر تصاویر دیکھ کر اور ٹیلی فونک انٹرویو کے ذریعے ابتدائی سلیکشن کرتے ہیں۔‘

 انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا: ’اس کے بعد ہمارا پینل دیکھتا ہے کہ کوئی لڑکی یا لڑکا خوبصورتی میں کتنا جاذب نظر ہے، تعلیم کتنی ہے، شخصیت کیسی ہے، بولنے کا انداز اور خاص طور پر انگلش زبان پر کتنا عبور ہے۔

’کیونکہ عالمی سطح پر زبان بہتر ہوگی تو ملک کے بارے میں تفصیل سے دنیا کو آگاہ کیا جاسکے گا۔‘

سونیا کے مطابق: ’ہماری سلیکشن میں ترجیح صرف پاکستان نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی لڑکے لڑکیاں زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مقامی امیدواروں کو بھی شامل کر کے انہیں مقابلوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل