خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے ہندوکش پہاڑی سلسلے میں واقع سب سے بلند چوٹی تریچ میر کو سر کرنے کے 75ویں پلاٹینیئم جوبلی تقریبات میں ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت کوہ پیماؤں کو مدد فراہم کی جائے گی۔
ضلع چترال میں موجود تریچ میر ہندوکش پہاڑی سلسلے میں 25 ہزار 289 فٹ کی سب سے بلند چوٹی ہے جس کو سب سے پہلے پروفیسر اربی نائس کی سربراہی میں 1950 میں ناروے کے کوہ پیماؤں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
اس سے پہلے 1928,1935,1939 اور 1949 میں اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کامیابی نہیں ملی تھی۔
ہندوکش پہاڑی سلسلہ جنوبی و وسطی ایشیا کے پہاڑوں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ ہے جو پاکستان، افغانستان اور تاجکستان تک پھیلا ہوا ہے اور تریچ میر ہمالیہ اور قراقرم پہاڑی سلسلوں کے علاوہ ہندوکش سلسلے میں سب سے بلند چوٹی ہے۔
خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تریچ میر کو سر کرنے کے منصوبے کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت 70 کوہ پیماؤں کو تربیت دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ چوٹی سر کرنے کے تمام تر اخراجات خیبر پختونخوا حکومت برداشت کرے گی اور دو سالوں تک تریچ میر کی رائلٹی فیس بھی معاف کر دی گئی ہے۔
مزمل اسلم کے مطابق ’اس منصوبے کا مقصد خیبر پختونخوا میں پہاڑی سلسلوں کی سیاحت کو فروغ دینا ہے اور ایک روایتی سیاحت سے مخصوص سیاحت کی طرف رجحان کو بڑھانا ہے۔‘
دی ہمالین جرنل کے مطابق تریچ میر کو سب سے پہلے 1895 میں یورپ کی ایک ٹیم نے دیکھا تھا جو چترال گئی تھی۔
چوٹیوں کو سر کرنے کا ریکارڈ مرتب کرنے والی ویب سائٹ سمٹ پوسٹ کے مطابق تریچ میر دراصل سات مختلف بلند چوٹیوں پر مشتمل ہے جسے مختلف راستوں سے سر کیا جاتا ہے۔
اس میں سب سے بلند چوٹی 25 ہزار 289 فٹ ہے جبکہ تریچ میر کی مشرق طرف سے جو تقریباً 25 ہزار 236 فٹ ہے، کو بھی پہلی مرتبہ 1964 میں ناروے کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
اسی طرح اٹلی کی ایک ٹیم نے تریچ میر سلسلے کی ویسٹ ٹو جو تقریباً 25 ہزار بلندی پر ہے، جو 1974 میں سر کیا گیا تھا جبکہ 1967 میں 25 ہزار سے کچھ کم بلندی کی چوٹی کو 1967 میں چیکوسلاویا کے ٹیم نے سر کیا تھا۔
اس کے بعد 1974 میں فرانس کی ایک ٹیم نے تریچ میر سلسلے کے 25 ہزار فٹ سے کم ایک اور چوٹی کو ویسٹ تھری روٹ کی جانب سے سر کیا تھا۔
تریچ میر کو سر کرنے کا روٹ
سمٹ پوسٹ کے مطابق تریچ میر کو سر کرنے کے لیے لوئر تریچ میر سے جا کر اوپر جانا ہوتا ہے جہاں تریچ میر لوئر اور اپر تریچ میر گلیشئر میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
تریچ میر کا بیس کیمپ تقریباً 15 ہزار 498 فٹ کی بلندی پر ہے جس کو ’بابو‘ کیمپ کہا جاتا ہے جو ایک مقامی گائڈ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
راستے میں شاہ گروم جانے کے لیے جیپ کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو تقریباً 12 فٹ کی بلندی تک جا سکتی ہے جبکہ نارویجین روٹ کو استعمال کرنے کے لیے بیرن گلیشیئر کے راستے سے جانا پڑتا ہے۔
تریچ میر کا مطلب کیا ہے؟
ایکسپلورر ویب کے مطابق ہندو کش رینج میں 19 ہزار فٹ سے بلند 38 چوٹیاں ہیں جو مشرق سے مغرب تک 950 کلومیٹر اور شمال سے جنوب تک 240 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
تریچ میر کے نام کے حوالے سے دو تھیوریز ہیں جس میں ایک چترال میں واقع مولخاؤ وادی ہے جہاں تریچ کا علاقہ ہے۔
دوسرا واخی زبان میں ’تریچ‘ سائے کو کہتے ہیں اور ’میر‘ بادشاہ کو یعنی تاریخی کا بادشاہ ہے اور اس کو اسی وجہ کہا جاتا ہے کہ اس چوٹی واخان کی جانب ایک بڑا سایہ نظر آتا ہے۔
تریچ میر اور مقامی فوکلورز
تریچ میر کے حوالے سے مختلف فوکلور بھی مشہور ہے اور ایکسپلورر ویب کے مطابق کیلاش وادی میں بسنے والے کیلاش قبیلے کے لوگوں کا خیال ہے کہ ’تریچ میر میں کرومائی دیوی رہتی ہے جو بچے دینے میں مدد‘ دیتی ہے۔
اسی طرح چترال میں رہنے والے دیگر چترالیوں (خوس بھی کہتے ہیں) کا خیال ہے کہ تریچ میر پریوں کا قلعہ ہے اور اس کو سر کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی حوالے سے 1950 میں تریچ میر سر کرنے والے ناروے کے کوہ پیما ٹونی ستھریتر نے ہمالین جرنل میں لکھا کہ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ تریچ میر میں ٹرک کے سائز کے بڑے مینڈک رہتے ہیں اور جو بھی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو مار دیا جاتا ہے اور اگر نہیں مارے گئے تو ایک سال بعد وہ مر جائیں گے۔
عطاالحق مرزا 1991 میں جاپانی ٹیم کے ساتھ تریچ میر کو سر کرنے والی ٹیم میں شامل تھے جو صرف 100 میٹر دوری سر نہیں کر پائے تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اعلان کردہ منصوبہ بہت اہم ہے لیکن ضروری ہے کہ ٹریننگ کے شرکا کو کچھ نہ کچھ کوہ پیمائی کا تجربہ ہو۔
عطاالحق کے مطابق، ’ٹریننگ کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہیے جو کلائمبنگ، ٹریکنگ کا تھوڑا بہت تجربہ رکھتے ہوں اور سر کرنے کے لیے آسان روٹ کا انتخاب کرنا چاہیے جو مغرب سے جا کر شمال کی طرف سر کرنا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے 1991 میں تریچ میر سمٹ کے بارے میں بتایا کہ یہ جاپان اور پاکستان کے کوہ پیماؤں کی مشترکہ ٹیم تھی اور ہم ویسٹ کی طرف سے شاہ گروم سے ہوتے ہوئے آگے گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اپر تریچ میر گلیشیئر کے بعد کیمپ فور تک کلائمب بہت مشکل ہے اور بغیر فکسڈ رسی سے نہیں ہوتا کیونکہ اوپر سے پتھر سرکتے ہیں اور اس کے بعد کیمپ فور کے بعد فائنل سمٹ ہے جو ایک مشکل راستہ ہے۔‘