چار برطانوی کوہ پیما لندن چھوڑنے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں نیپال میں ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ گیے ہیں، جو دنیا کی سب سے بلند چوٹی پر ریکارڈ کی جانے والی سب سے تیز چڑھائیوں میں سے ایک ہے۔
چار برطانوی کوہ پیماوں کی ٹیم نے کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام ثبت کر لیا ہے، جو زینون گیس کا استعمال کرتے ہوئے ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے ہیں، جو اس کارنامے کے لیے عام طور پر درکار ایڈجسٹمنٹ کی مدت کو نمایاں طور پر کم کر دیتا ہے۔
اس مہم میں، جسے آسٹریا کی فورٹن بیک ایڈوینچرز نے پلان کیا، کوہ پیماوں نے لندن چھوڑنے کے بعد پانچ دن سے بھی کم وقت میں 8,848 میٹر (29,032 فٹ) کی چوٹی پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔
روایتی ایورسٹ کی مہمات میں پہاڑ پر ایڈجسٹمنٹ کے لیے ہفتے یا مہینے لگتے ہیں، تاکہ کوہ پیما کے جسم سخت بلندیوں کے مطابق ڈھل سکیں۔
یہ عمل حفاظت کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ صحیح ایڈجسٹمنٹ کے بغیر چڑھائی کی کوشش کرنا شدید خطرات کا باعث ہو سکتا ہے۔ اپنی چڑھائی سے پہلے، برطانوی ٹیم نے جرمنی میں زینون گیس کے استعمال کی مشق کی، جو ایڈجسٹمنٹ کے عمل کو تیز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
زینون گیس کے علاج کے علاوہ، کوہ پیماوں نے اپنے گھر میں تیاری کے دوران اونچائی کے خصوصی خیموں کا استعمال بھی کیا۔
پہاڑ پر انہوں نے اضافی آکسیجن کا استعمال کیا، جو ایورسٹ کے کوہ پیماوں کے لیے ایک معمول کا عمل ہے۔
زینون، جو زمین پر کم مقدار میں موجود بے رنگ اور بے بو گیس ہے، کچھ بے حسی کی خصوصیات رکھتی ہے اور اس کا طبی استعمال بھی تسلیم شدہ ہے۔
فورٹن بیک نے بیس کیمپ سے روئٹرز کو پہاڑوں پر کم آکسیجن کے بارے میں ایک ٹیکسٹ پیغام میں بتایا کہ ’زینون ایڈجسٹمنٹ کو بہتر بناتا ہے اور جسم کو بلندی کی بیماریوں اور کم آکسیجن والے ماحول کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فورٹن بیک نے جو اب تک چار بار ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے منصوبے بنا چکی ہے، کہا کہ ماضی میں گائیڈز نے زینون گیس کا استعمال کیا ہے لیکن ’یہ پہلی بار ہے کلائنٹس‘ یا عام کوہ پیماوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زینون نے چوٹی سر کرنے کی مہم کو محفوظ اور مختصر بنایا کیونکہ یہ کوہ پیماوں کو صحیح طور پر ماحول سے مانوس رکھتا ہے۔
فورٹن بیک نے کہا: ’مختصر مہم کا مطلب بھی کم کچرہ، کم وسائل اور اس حساس ماحول میں کم انسانی فضلہ بھی ہے۔‘ حالیہ سالوں میں ایورسٹ پر کوہ پیماوں کی طرف سے پھینکا جانے والا کچرہ ایک مسئلہ رہا ہے۔
امریکی کوہ پیما اور گائید ایڈریان بالنگر نے، جو الپینگو ایکسپڈیشنز کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، زینون کے استعمال کو ’ایک ڈھونگ‘ قرار دیا... ’یہ کبھی بھی ایسا تجربہ نہیں لگا جسے ہم مہیا کرنا چاہتے ہیں۔‘
بالنگر نے کہا: ’ہر کسی کو اس حالت میں پہاڑ پر چڑھنا جاہیے جس پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ کوہ پیما اس طرز پر فخر محسوس کرتے ہیں، تو یہ ان کا انتخاب ہے۔‘
نیپال نے موجودہ مارچ-مئی کی چڑھائی کے موسم کے دوران ایورسٹ پر 468 افراد کو پرمٹ جاری کیے ہیں اور اب تک 200 سے زیادہ افراد چوٹی سر کر چکے ہیں۔
نیپال کے ایسے کوئی قواعد نہیں ہیں کہ کوہ پیماوں کو ایڈجسٹ ہونے یا چوٹی سر کرنے میں کتنے دن صرف کرنے چاہیں۔ ان کے پرمٹ، جو ہر ایک کی قیمت گیارہ ہزار ڈالرز ہے، 90 دن کے لیے مفید ہیں۔
© The Independent