کیا واقعی فون گیلا ہونے پر چاولوں میں رکھنے سے فائدہ ہوتا ہے؟

انٹرنیٹ فورمز ایسے مشوروں سے بھرے پڑے ہیں جو بھیگی ہوئی ڈیوائس کو خشک کرنے کے طریقے بتاتے ہیں، لیکن کسی مائع سے بچاؤ اور مرمت کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں صارفین کے لیے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل بنا دیتی ہیں۔

چاولوں کو آج بھی عام طور پر گیلے ہو جانے والے موبائل فون کو ٹھیک کرنے کا آزمودہ طریقہ سمجھا جاتا ہے (اے پی)

تقریباً ہر کسی کو اس ناقابلِ تصور واقعے سے سابقہ پڑ چکا ہے، یعنی آپ کا سمارٹ فون ٹوائلٹ میں جا گرا ہو یا آپ تیراکی کے لیے کود پڑے ہوں اور سمارٹ واچ اتارنا بھول گئے ہوں۔

یا ہو سکتا ہے کہ آپ نے کپڑے دھونے سے پہلے ایئربڈز جیب سے نکالنے کا ارادہ کیا ہو، مگر وہ وہیں رہ گئے ہوں۔

اب کیا کریں؟

انٹرنیٹ فورمز ایسے مشوروں سے بھرے پڑے ہیں جو بھیگی ہوئی ڈیوائس کو خشک کرنے کے طریقے بتاتے ہیں، لیکن کسی مائع سے بچاؤ اور مرمت کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں صارفین کے لیے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل بنا دیتی ہیں۔

میں ایک محقق ہوں، جو اس بات کا مطالعہ کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی کس طرح لوگوں کی روزمرہ کی عادات اور تجربات میں کردار ادا کرتی ہے۔

میری نئی کتاب ’لائسنس ٹو سپل: ویئر ڈرائی ڈیوائسز میٹ لکوئڈ لائیوز‘ (License to Spill: Where Dry Devices Meet Liquid Lives) میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہم اپنے الیکٹرانک آلات کی گیلی- خشک حد (wet-dry boundary) کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کس طرح یہ ہمارے رویوں کو متاثر کرتی ہے۔

ڈیوائسز کے گیلا ہونے کے حوالے سے پانچ عام مفروضے کچھ یہ ہیں:

مفروضہ نمبر ایک: میری ڈیوائس دوبارہ آن ہو گئی، اب سب ٹھیک ہے!

یہ ضرور سکون کی بات ہوتی ہے کہ جب آپ کی ڈیوائس دوبارہ آن ہو جائے مگر جو چیز آپ نہیں دیکھ سکتے، وہ ایسا خفیف اور خطرناک عمل ہے جو اس کے اندر جاری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زنگ لگنا۔ نمی کی وجہ سے آلات کے دھاتی حصے اکثر وقت کے گزرنے ساتھ خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو واقعہ پیش آنے کے دنوں، ہفتوں یا مہینوں بعد بھی شروع ہو سکتا ہے۔

اسی لیے مرطوب علاقوں کی ہوا یا باتھ روم کے بھاپ بھرے ماحول کی نمی بھی طویل مدتی اثر ڈال سکتی ہے ۔ چاہے ڈیوائس کسی چھینٹے یا مائع میں گرنے کے فوراً بعد صحیح سلامت آن ہو بھی ہو گئی ہو۔

مفروضہ نمبر دو: میری ’واٹر پروف‘ ڈیوائس کسی بھی طرح کی نمی برداشت کر سکتی ہے

’واٹر پروف‘ ایک متنازع اصطلاح ہے۔ اتنی متنازع کہ فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے اشتہارات میں اس کے استعمال سے متعلق سخت قوانین لاگو کیے اور ایک موقعے پر تو گھڑیوں کے اشتہارات میں اس لفظ کے استعمال پر پابندی بھی لگا دی گئی۔

چوں کہ یہ اصطلاح مبہم ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ پانی کے خلاف مزاحمت کے مختلف معیارات کا جائزہ لیں ۔ مثال کے طور پر گھڑیوں کے لیے انگریس پروٹیکشن (آئی پی) یا ایم آئی ایل۔ ایس پی ای سی یا آئی ایس او معیارات۔ ساتھ ہی یہ بھی ضرور پڑھیں کہ یہ معیار دراصل کس قسم کی نمی یا پانی سے بچاؤ کی ضمانت دیتے ہیں۔

مفروضہ نمبر تین: میرے ڈیوائس کی آئی پی ریٹنگ بہت اعلیٰ ہے۔ یہ حقیقی حالات میں آزمودہ ہے۔

کمپنیاں اکثر آئی پی ریٹنگ کو صارفین کو اپنی مصنوعات خریدنے پر آمادہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس ریٹنگ کا تعلق صرف آلے پر صاف پانی لگنے کے ساتھ ہے۔ اگر آپ گرم پانی میں بننے والی جھاگ یا الٹ جانے والے بیئر کے کین کے بارے میں فکر مند ہیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کی ڈیوائس کو ان اکثر چپچپے، حالات میں آزمایا گیا ہو۔ آئی پی ریٹنگ ایسی صورت حال کو کور نہیں کرتی۔

مروضہ نمبر چار: میرے کچن میں چاول ہیں، میں خود ہی ڈیوائس ٹھیک کر سکتا ہوں

یہ فطری امر ہے کہ جب ڈیوائس پر پانی گر جائے یا وہ گیلی ہو جائے، تو انسان گھبراہٹ میں سب سے جلد گھریلو حل تلاش کرتا ہے اور چاول کا کپ آج بھی عام طور پر آزمودہ طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

تاہم چاول کا یہ ٹوٹکا زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتا اور چاول کے ذرات ڈیوائس کے اندر جا کر اسے مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

کسی مرمت کرنے والے ماہر کے پاس ڈیوائس لے جانے کے علاوہ بہتر یہ ہے کہ آپ فوراً ڈیوائس کو بند کر دیں۔ اگر ممکن ہو تو اس کی بیٹری اور پلگ نکال دیں اور تمام پرزوں کو ایک یا دو دن کے لیے خشک ہونے دیں۔

مفروضہ نمبر پانچ: یہ ڈیوائس تو خراب ہو گئی ہے، لیکن میرے پاس وارنٹی ہے، نئی مل جائے گی

جب آپ اپنی ڈیوائس کو پانی سے نکال رہے ہوتے ہیں، تو یہ سوچ کر کچھ تسلی ہو سکتی ہے کہ اس کے ساتھ وارنٹی بھی آئی تھی۔

لیکن ذرا ٹھہریں۔

زیادہ تر روایتی کنزیومر ٹیکنالوجی کی محدود وارنٹیز پانی یا نمی سے ہونے والے نقصان کا احاطہ نہیں کرتیں۔ آج کل اس کے لیے آپ کو عام طور پر اضافی وارنٹی خریدنی پڑتی ہے، جسے حادثاتی نقصان کہا جاتا ہے۔ لیکن خبردار ان پالیسیوں میں بھی یہ حد ہو سکتی ہے کہ آپ سال میں کتنی بار پانی یا نمی سے ہونے والے ’واقعات‘ یا ’حادثات‘ کی صورت میں کلیم کر سکتے ہیں۔

حقیقت پسند ہونا ضروری ہے!

لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، سمارٹ فون اور سمارٹ واچ جیسی ڈیوائسز میں پانی سے بچاؤ کی صلاحیت حالیہ برسوں میں بہتر ضرور ہوئی ہے، لیکن صارفین کے حوالے سے حالات اب بھی اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں، جہاں انہیں اشتہاری دعوؤں کے شور، الجھا دینے والے درجہ بندی کے نظام اور سخت پالیسیوں کے بھنور سے گزرنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی لیے یہ بہت ضروری ہے کہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کے ڈیزائن، تشہیر اور سروس کے طریقے پر نہایت غور اور اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ سوچیں۔ ڈیزائن کے حوالے سے، پانی سے بچاؤ کی خصوصیت اب محض صنعتی کارکنوں یا مہم جو افراد کے لیے مخصوص کوئی نایاب فیچر نہیں رہی۔

اگرچہ یہ غیر حقیقی توقع ہے کہ کوئی ڈیوائس ہر خطرے کا مقابلہ کرے لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ صارفین سے یہ امید رکھی جائے کہ وہ ان مصنوعات کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کریں، جو انہیں اہم سہولیات اور سماجی تعاون تک رسائی فراہم کرتی ہیں۔

یہ بہت ضروری ہے کہ کمپنیاں صارفین سے ایسے وعدے نہ کریں جو حقیقت سے بہت دور ہوں۔ مثال کے طور پر، سام سنگ آسٹریلیا کو تیراکی کے دوران اپنے فونز کے پانی سے محفوظ رہنے کے مبالغہ آمیز دعوؤں پر ایک کروڑ 40 لاکھ آسٹریلین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

یقیناً یہ دلچسپ لگتا ہے کہ ایک اشتہار میں امریکی گلوکار لِل وین سمارٹ فون پر شیمپین ڈال رہے ہوں ہو یا اسے مچھلیوں کے ٹینک میں ڈبو رہے ہوں، لیکن اگر کمپنیاں خود ہی صارفین کو ایسے تجربات سے روک رہی ہیں تو پھر انہیں ان مناظر کو دل کش انداز میں پیش بھی نہیں کرنا چاہیے۔

یقیناً یہ عام فہم بات ہے کہ آپ کے فون کو شیمپین سے نہیں نہلایا جانا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے معاملات ہمارے اردگرد اور ہمارے ڈیوائسز کے معاملے میں مسلسل جاری رہتے ہیں۔ چاہے وہ شاور ہو، کچن، جِم یا سمندر کا کنارہ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مرمت کے معاملے میں زیادہ منصفانہ پالیسیوں، جیسے کہ ’رائٹ ٹو ریپئر تحریک‘ میں تجویز کی جاتی ہیں اور وارنٹیز کو صارفین کے ساتھ ایسا سلوک بند کر دینا چاہیے کہ جیسے وہ ’غلط استعمال کرنے والے‘ ہوں۔

آخر ہم سب کے ساتھ یہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ صرف ایک غلطی یا حادثہ کافی ہے کہ ہم اپنے خراب ہو جانے والی ڈیوائس پر افسوس کریں۔

ریچل پلوٹنک انڈیانا یونیورسٹی میں سینیما اور میڈیا سٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

یہ مضمون سب سے پہلے دی کنورسیشن میں شائع ہوا اور اسے کری ایٹیو کامنز لائسنس کے تحت دوبارہ شائع کیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی