نجی امریکی خلائی کمپنی سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان غیر معمولی تنازعے کے نتائج خلائی سفر کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
خود کو امریکی صدر کا ’فرسٹ بڈی‘ کہنے والے مسک اور ٹرمپ کے درمیان بڑی لڑائی جاری ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سر عام متعدد الزامات لگائے اور دھمکیاں دیں۔
ان میں سے زیادہ تر باتیں ایک دوسرے کی ذات اور ماضی کے حوالے سے تھیں، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی جب ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ مسک کے حکومت کے ساتھ معاہدے ختم کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا ’ہمارے بجٹ میں اربوں ڈالر بچانے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ایلون کو ملنے والی سرکاری سبسڈیز اور معاہدے ختم کر دیے جائیں۔ مجھے ہمیشہ حیرت رہی کہ صدر بائیڈن نے ایسا کیوں نہیں کیا۔‘
اس بیان کے بعد مسک نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا ’صدر کی طرف سے میرے حکومت کے ساتھ معاہدے منسوخ کرنے کے بیان کے بعد سپیس ایکس فوری طور پر اپنے ڈریگن خلائی جہاز کا استعمال بند کرنا شروع کر دے گی۔‘
(تاہم کچھ دیر بعد انہوں نے لکھا کہ ’ہم ڈریگن کا استعمال بند نہیں کریں گے۔‘ البتہ یہ واضح نہیں کہ یہ بیانات سنجیدگی سے دیے گئے یا نہیں۔)
اس تنازعے سے کافی تشویش پیدا ہوئی۔ صرف دونوں کے تند وتیز بیانات کے باعث ہی نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان بیانات کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے معروف جریدے آرس ٹیکنیکا کے صحافی ایرک برگر نے ٹویٹ کیا کہ مسک کی اس دھمکی کے نتیجے میں ’بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا اور ساتھ ہی اسے بحفاظت مدار سے نکالنے کا کوئی راستہ بھی نہیں بچے گا۔‘
مسک نے اس ٹویٹ کا جواب بھی دیا، لیکن امریکی اور عالمی خلائی پروگرام پر اس تنازعے کے ممکنہ نتائج اس سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔
ایرک برگر کے ٹویٹ کے مطابق مسک کی جانب سے ڈریگن جہاز کا استعمال بند کرنے کی دھمکی عالمی خلائی سٹیشن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اس وقت ڈریگن خلائی جہاز ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے امریکہ اپنے خلا بازوں کو خلا میں بھیج اور واپس لا سکتا ہے۔
مستقبل میں یہ بھی توقع ہے کہ سپیس ایکس ہی وہ خلائی جہاز تیار کرے گی جس کے ذریعے 2030 میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی آپریشن لائف مکمل ہونے کے بعد اسے محفوظ طریقے سے مدار سے نکالا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اس تنازعے کے اثرات بین الاقوامی خلائی سٹیشن تک محدود نہیں رہیں گے۔
خلائی تحقیق کا امریکہ ادارہ ناسا، سپیس ایکس اور دیگر خلائی ادارے واضح طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ مستقبل کا اصل منصوبہ زمین کا نچلا مدار ہے جہاں بین الاقوامی خلائی سٹیشن موجود ہے، سے نکل کر خلا میں مزید دور تک جانا ہے۔
پہلے مرحلے میں خلا بازوں کو چاند پر لے جایا جائے گا اور پھر آخرکار مریخ کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
ان تمام مشنز میں بھی سپیس ایکس کا کردار بہت اہم ہے۔ کمپنی اس وقت اپنا نیا سٹار شپ خلائی جہاز تیار کرنے میں مصروف ہے جس کا واضح مقصد مریخ پر انسانی آبادکاری کا آغاز ہے۔
خلائی سفر میں سپیس ایکس کی بالادستی کی بنیادی وجہ ایک خاص لمحہ تھا جب امریکہ کا سپیس شٹل پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔
سپیس شٹل کا مقصد دوبارہ قابل استعمال جہازوں کے ذریعے خلا کا سفر آسان بنانا تھا، لیکن جان لیوا حادثات، بہت زیادہ اخراجات اور دیگر مسائل کے باعث اسے 2010 میں بند کرنا پڑا۔
اس کے بعد امریکہ 10 برس تک خلا بازوں کو خلا میں بھیجنے کے لیے روس پر انحصار کرنے پر مجبور رہا۔ 2020 میں سپیس ایکس کے ڈریگن جہاز نے امریکی خلا بازوں کو خلا میں پہنچایا، جس کے بعد سے یہ مسلسل ایسا کرتا آ رہا ہے۔
اس طرح ناسا کا انحصار سپیس ایکس کے ڈریگن خلائی جہاز پر بہت بڑھ گیا۔ اس انحصار کی سب سے واضح مثال رواں برس اس وقت سامنے آئی جب بوئنگ کے سٹار لائنر خلائی جہاز میں تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی اور اس کے عملے کو واپس لانے کے لیے بھی سپیس ایکس کے خلائی جہاز کا سہارا لینا پڑا۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ سپیس ایکس کے ساتھ معاہدے منسوخ کرنے کی اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہیں یا مسک اپنے ڈریگن پروگرام کو بند کرنے کے اعلان پر عمل کریں تو یہ تمام پیش رفت خطرے میں پڑ جائے گی۔
ایسی صورت حال میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن، چاند اور مریخ کی جانب امریکی خلائی سفر کا پورا منصوبہ بھی داؤ پر لگ سکتا ہے، کیوں کہ ان منصوبوں کا مکمل دارومدار اب سپیس ایکس پر ہے۔
© The Independent