دہلی دھماکے کی تحقیقات ’دہشت گردی‘ کے قانون کے تحت: میڈیا

منگل کی صبح فرانزک اور انسداد دہشت گردی ماہرین کو جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ دہلی میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

انڈین میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ دہلی پولیس پیر کی شام کے کار بم دھماکے کی تحقیقات ’دہشت گردی‘ سے لڑنے کے لیے استعمال ہونے والے ایک سخت قانون کے تحت کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں انڈین میڈیا نے کار بم دھماکے کا دہلی کے ایک پولیس سٹیشن میں درج کیے گئے مقدمے کا حوالہ دیا۔

پیر کی شام دارالحکومت دہلی میں مغلیہ دور تعمیر ہونے والے لال قلعے کے قریب نہایت رش والے اور گنجان آباد ضلعے میں ایک کار بم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ اموات ہوئیں اور ایک درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔

دہلی پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ ایک سست رفتار کار جو ٹریفک سگنل پر رکی مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے سے کچھ پہلے پھٹ گئی، جس سے میٹرو سٹیشن کے قریب ایک گنجان سڑک پر بکھری ہوئی لاشیں اور کئی دیگر کاروں کا ملبہ رہ گیا۔

بھارتی کرائم سین کے تفتیش کار منگل کی صبح کار کے ملبے میں شواہد تلاش کرتے ہوئے دیکھے گئے۔

اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے دھماکے کی مقام سے بتایا کہ پولیس نے گاڑیوں کی جلی ہوئی باقیات کے گرد سفید چادریں لگا دی ہیں۔

فرانزک اور انسداد دہشت گردی دونوں ایجنسیاں شواہد تلاش کر رہی ہیں جبکہ دہلی میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

انڈین حکام کے مطابق واقعے کے بعد انڈیا بھر کے بڑے ریلوے سٹیشنوں، مالیاتی مرکز ممبئی اور دہلی سے متصل ریاست اترپردیش میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ’تمام پہلوؤں‘ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور سکیورٹی ادارے جلد نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق کار کے ایک سابق مالک کو، جس کا نام صرف سلمان بتایا گیا ہے، دھماکے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔

تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ روئٹرز اس رپورٹ کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔

لال بتی پر کار رکی اور دھماکہ ہو گیا

دھماکے کے بعد پرانی دہلی کے ایک مصروف علاقے میں میٹرو سٹیشن کے قریب سڑک پر جلی ہوئی لاشیں اور تباہ شدہ گاڑیاں دیکھی جا سکتی تھیں، جب کہ پولیس علاقے کو محاصرے میں لے کر ہجوم کو پیچھے ہٹا رہی تھی۔

دہلی پولیس کے کمشنر ستیش گولچا نے صحافیوں کو بتایا ’ایک سست رفتاری سے آنے والی گاڑی لال بتی پر رکی۔ اسی گاڑی میں دھماکہ ہوا، جس کی وجہ سے قریب موجود دیگر گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ دھماکہ شام سات بجے سے کچھ پہلے ہوا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اور کہا متاثرہ افراد کی مدد کے لیے حکام سرگرم ہیں۔

دہلی کے ڈپٹی فائر چیف کے مطابق کم از کم چھ گاڑیوں اور تین آٹو رکشاؤں میں آگ بھڑک اٹھی۔

 

’شدید دھماکہ‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ انہوں نے زور دار دھماکہ سنا۔ایک خاتون سمن مشرا نے کہا ’میں میٹرو سٹیشن پر سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ دھماکے کی آواز سنی۔ 

’پیچھے مڑ کر دیکھا تو آگ لگی ہوئی تھی۔ لوگ گھبرا کر ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔‘

ایک دکان دار ولی الرحمان نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا ’میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا۔ دھماکے کے جھٹکے سے میں گر گیا، اتنا شدید دھماکہ تھا۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روئٹرز کے مطابق دھماکے کی جگہ پر 30 سے 40 ایمبولینسیں موجود تھیں اور آگ بجھانے کے بعد پورے علاقے کو سیل کر دیا گیا۔

دہلی میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کے لیے سکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہجوم سے اور لال قلعے کے اردگرد کے علاقوں سے دور رہیں اور سیاحتی مقامات پر محتاط رہیں۔

ماضی میں دہلی کو نشانہ بنایا جا چکا ہے

لال قلعہ 17ویں صدی کی مغل دور کی ایک وسیع و عریض عمارت ہے جو فارسی اور ہندوستانی طرزِ تعمیر کا امتزاج پیش کرتی ہے اور سال بھر سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔

وزیر اعظم ہر سال 15 اگست کو انڈیا کے یوم آزادی پر قلعے کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں۔

دہلی کو 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 

اس دوران بس اڈوں اور مصروف بازاروں جیسے عوامی مقامات پر حملے کیے گئے جن کی ذمہ داری کبھی عسکریت پسندوں پر ڈالی گئی اور کبھی شمالی ریاست پنجاب کے سکھ علیحدگی پسندوں پر۔

2011 میں دہلی ہائی کورٹ کے باہر ایک بریف کیس میں دھماکے کے نتیجے میں تقریباً ایک درجن افراد مارے گئے تھے۔ یہ شہر میں اس نوعیت کا آخری بڑا واقعہ تھا۔

قومی دارالحکومت میں سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی وزارت داخلہ کے پاس ہے۔ دہلی پولیس براہِ راست اسی کو رپورٹ کرتی ہے، اگرچہ دارالحکومت کے اپنے مقامی حکومتی ادارے بھی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا