مزدور عورتوں کا المیہ

مزدور عورتیں غربت اور مفلسی کے باوجود معاشرے کی بنیادی تشکیل کرتی ہیں، اشرافیہ اور متوسط طبقے کے لوگوں کو آرام اور سکون پہنچا کر خود زندگی کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔

صنعتی انقلاب میں خواتین کا اہم کردار ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے (پبلک ڈومین)

وہ عورتیں جو بادشاہ کے حرم اور امرا کی حویلیوں میں ملازم ہوتی تھیں وہاں اُنہیں ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ رہائش اور کھانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہر ایک ملازم عورت اپنے خاص کام کے بعد فارغ ہو کر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی تھی۔ تہواروں پر انہیں تحفے تحائف بھی ملا کرتے تھے۔

ثقافتی، سماجی سرگرمیوں میں بیگمات کے ساتھ حصہ لیتی تھیں لہٰذا ان کی زندگی گھر کی چاردیواری میں محفوظ تھی۔ مغربی معاشرے میں بھی ملازم لڑکیاں جو امرا کے گھروں میں کام کرتی تھیں وہ اپنے فرائض اور حقوق سے آگہی رکھتے ہوئے اپنے پیشہ ورانہ کام پورا کرتی تھیں۔ لیکن ان ملازم عورتوں کے برعکس اُن عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جو مزدوری کر کے اور محنت و مشقت کے بعد روزی کماتی تھیں۔

جب انگلستان میں صنعتی انقلاب آیا تو اس نے روایتی خاندانوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا۔ اب تک مرد اور عورتیں گھروں میں مل کر کام کرتے تھے۔ لیکن جب فیکٹری سسٹم کی ابتدا ہوئی تو مزدوروں کو جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں گھر چھوڑ کر فیکٹری میں مشینوں پر کام کرنا پڑا۔

 فیکٹری سسٹم میں سب سے زیادہ نقصان عورتوں کو پہنچایا۔ شروع میں کپڑے کی فیکٹریاں تھیں جہاں مشینوں کو چلانے کے لیے کسی خاص تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، لہٰذا فیکٹری کے مالکان ان مشینوں کو چلانے اور دیکھ بھال کے لیے غیرشادی شدہ عورتوں اور بچوں کو ملازم رکھتے تھے۔ شادی شدہ عورتوں کو اس لیے ملازمت نہیں دی جاتی تھی کیونکہ ان کے ساتھ زچگی اور بچے کی پرورش کے مسائل ہوتے تھے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو آدھی تنخواہ دی جاتی تھی۔ اُن کے نزدیک عورتوں کو کنٹرول کرنا بھی آسان ہوتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کام کے دوران بات چیت کرنا یا گانا گانا ممنوع تھا۔ کام کا دورانیہ 18 سے 19 گھنٹے ہوا کرتا تھا اور پھر عورتوں کو واپس گھر جا کر کھانا پکانا بھی پڑتا تھا۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ اپنے کپڑے دھو کر صاف ستھرا لباس پہن سکیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی ہوتے تھے۔ رہائش کے لیے کچی آبادیاں تھیں جہاں نہ تو گندے پانی کی نکاسی کا بندوبست تھا اور نہ پینے کے لیے صاف پانی۔ اس لیے یہ عورتیں بیماریوں کا شکار بھی رہتی تھیں۔ فیکٹری کے بعد یہ عورتیں کوئلے کی کانوں میں بھی کام کرتی تھیں جہاں پر اکثر جگہ انہیں رینگ کر جانا ہوتا تھا۔ کان کی گھٹن میں کام کرنے کی وجہ سے یہ بیماریوں میں مبتلا بھی رہتی تھیں۔

کچھ فیکٹریوں میں تیاری کے بعد ایک کمرے میں 25-20 عورتیں سِلائی کا کام کرتی تھیں۔ اتنے افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمرے کی آکسیجن کم ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے بعض اوقات لڑکیاں بے ہوش ہو جاتی تھیں اور ایسے بھی واقعات ہوئے کہ دم گھٹنے سے کچھ مر بھی گئیں۔ جب یہ خبریں باہر پہنچیں تو انگلستان کے اخباروں میں اس پر احتجاج کیا گیا اور پارلیمنٹ میں یہ بحث ہوئی کہ اس کی اصلاح کرنی چاہیے چنانچہ اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے فیکٹریوں کی حالت درست ہونی شروع ہوئی۔

برصغیر ہندوستان میں بھی مزدور عورتوں کی بڑی تعداد ہے جو گھر کی آمدنی کے لیے مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، کیونکہ یہاں سڑکیں اور عمارتیں بنانے کا کام ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کسان اور خانہ بدوش قبیلوں کی عورتوں سے محنت مزدوری کراتے ہیں جو اُنہیں سستے نرخوں پر مل جاتے ہیں سڑکوں کو بناتے وقت پتھروں کو کوٹنے کا کام مزدور عورتیں کرتی ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے حیدر آباد دکن کا سفر کرتے ہوئے سخت گرمی میں ان عورتوں کو سڑکیں بناتے ہوئے دیکھا۔ وہ بے حد متاثر ہوئے اور ان پر ایک نظم کہہ دی جس کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔

یہ اُبلتی عورتیں اس چلچلاتی دھوپ میں
سنگ اسود کی چٹانیں آدمی کے روپ میں

مزدور عورتیں عمارتوں کی تعمیر میں مردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کا چھوٹا بچہ ہو تو اُسے کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ رکھ دیتی ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے تو اُس کی دیکھ بھال کرلیتی ہیں۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہ تیار مصالحے کو پراتوں میں بھر کر مزدوروں تک پہنچاتی ہیں۔ ایک بار جبکہ گھر مکمل ہو رہا تھا تو ایک مزدور عورت نے حسرت سے کہا کہ کاش میں بھی ایسے گھر میں رہ سکتی۔

غریب مزدور عورتوں اور اُن کے خاندان کا سب سے زیادہ استحصال اینٹوں کے بھٹے میں اُس کے مالکوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ عورتوں اور اس کے خاندان والوں کو ضرورت کے وقت قرضہ دے کر اُنہیں غلام بنا لیتا ہے اور زندگی بھر نہ تو یہ قرضہ اُترتا ہے اور نہ ہی وہ اس کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مالک اور اُس کے غنڈے عورتوں کی عصمت دری بھی کرتے ہیں اور اُن پر حکم بھی چلاتے ہیں۔ کیونکہ بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے بار بار تحریکیں چلائی گئیں لیکن یہ سب بے اثر رہیں۔

اب غریب مزدور عورتوں کے ساتھ ساتھ نچلے متوسط درجے کی عورتیں بھی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں۔ خاص طور سے کپڑے کی مِلوں میں ان کو ماہانہ تنخواہ نہیں دی جاتی ہے بلکہ ان کی اجرت دیہاڑی کی شکل میں ادا ہوتی ہے۔

گرمی اور سردی کے موسم میں یہ موسم کی سختی برداشت کر کے کام کرتی ہیں اور مہنگائی کا مقابلہ کرتی ہیں۔ انہیں مشکل ہی سے اتنا وقت ملتا ہے کہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس وقت خاص طور سے بنگلہ دیش میں کپڑے کی صنعت میں اکثریت مزدور عورتوں کی ہے جو اپنے ملک کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہیں۔

ان مزدور عورتوں کے علاوہ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کی بڑی تعداد ہے جہاں نہ تو ان کی ملازمت کا تحفظ ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔ اخبارات میں روز ایسی خبریں آتی ہیں جن میں گھریلو ملازماؤں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تشدد کے نتیجے میں اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں چاہے تعمیراتی کاموں میں مصروف ہوں اینٹوں کے بھٹوں میں کام کریں یا فیکٹریوں میں محنت مزدوری کریں اور یا گھریلو خواتین ایک گھر سے دوسرے گھر صبح سے شام تک کاموں میں مصروف رہیں۔ اس محنت کے باوجود معاشرہ ان کی عزت نہ کرے تو اس سے بڑھ کر اخلاقی جرم اور کیا ہو گا۔

المیہ یہ ہے کہ روایتی تاریخ میں بھی ان عورتوں کے کاموں کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ اپنی غربت اور مفلسی کے باوجود معاشرے کی بنیادی تشکیل کرتی ہیں اور اپنی محنت سے اشرافیہ اور متوسط طبقے کے لوگوں کو آرام اور سکون پہنچا کر خود زندگی کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ