آمریت سے لڑنے والا کراچی پریس کلب، جہاں ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی گئی

سابق سیکریٹری کراچی پریس کلب کے مطابق ضیا الحق کی آمریت کے دوران بیگم نصرت کو پارٹی اجلاس کے لیے پورے ملک میں جگہ نہیں ملی تو یہ سہولت کراچی پریس کلب نے مہیا کی۔

ارکان کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کے بڑے پریس کلبز میں ایک اور ہر آواز سننے کے باعث ’ہائیڈ پارک‘ کے نام سے جانا جانے والے کراچی پریس کلب میں تحریک بحالی جمہوریت یا موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

سابق سیکریٹری جنرل کراچی پریس کلب اے ایچ خانزادہ کے مطابق پاکستان کے سابق فوجی آمر ضیا الحق کی آمریت کے دوران سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ کرنا چاہتی تھیں مگر اس کے لیے انہیں پاکستان بھر میں کہیں جگہ نہ ملی۔

’تو ایسے میں کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی عمارت میں اجلاس منعقد کرنے کی دعوت دی۔‘

انڈپینٹنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اے ایچ خانزادہ نے کہا : ’کراچی پریس کلب کے موجودہ کمیٹی ہال میں اس وقت نصرت بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس کے دوران تحریک بحالی جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی اور اس تحریک کے دوران پاکستان بھر میں ضیا الحق کی آمریت کے خلاف جمہوریت پسند لوگوں نے ملک بھر میں تحریک چلائی۔‘

کراچی پریس کلب کے قیام کے متعلق بات کرتے ہوئے اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ یہ تاریخی عمارت کراچی کے صحافیوں کو بطور کراچی پریس کلب 26 دسمبر 1958 کو ایک فوجی افسر جنرل اعظم خان نے دی تھی۔

اے ایچ خانزادہ کے مطابق: ’کراچی پریس کلب شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے، جہاں 26 دسمبر 1958 میں قیام سے آج تک کسی بھی سال انتخابات ملتوی نہیں ہوئے اور ہر سال باقائدہ الیکشز منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد ہارنے والا پینل صدق دل سے نتائج کو تسلیم کرتا ہے اور آج تک کراچی پریس کلب کے نتائج پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔

’اس کے علاوہ کراچی پریس کلب ہر آمریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا رہا ہے۔‘

کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی کے مطابق کلب کو موسٹ لبریٹیڈ پیلس یا ’سب سے آزاد جگہ‘، ’آزادی کی چھڑی‘ اور ’ہائیڈ پارک‘ جیسے خطابات مل چکے ہیں۔

سعید سربازی کے مطابق: ’کراچی پریس کلب کی روایت رہی کہ کوئی بھی وردی والا اس عمارت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ جب کراچی پریس کلب کی باڈی نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل شوکت سلطان کو پریس کلب میں مدعو کیا تو اس پر ارکان کی جانب سے اتنی مزاحمت ہوئی کہ پریس کلب کی باڈی کے تمام ارکان کو استعفیٰ دینا پڑا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی پریس کلب کے سابق صدر فاضل جمیلی کے مطابق ’کراچی پریس کلب کی سنہری تاریخ رہی ہے اور یہ کلب مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ فوجی آمر ضیاالحق کے دور کے دوران جب کراچی پریس کلب نے فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی کو لائف ممبر شپ دی، جو فوجی آمر کے لیے ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک پیغام تھا۔‘

فاضل جمیلی کا کہنا تھا: ’اس وقت آمر ضیا الحق کے وزیر اطلاعات نے کراچی پریس کلب کو ’دشمن کا علاقہ‘ یا قرار دیا تھا، جس پر فیض احمد فیض نے جواب دیا کہ ’کراچی پریس کلب از دا موسٹ لبریٹڈ ٹیریٹری‘ یعنی کراچی پریس کلب سب سے آزاد جگہ ہے۔

’کراچی پریس کلب ہمیشہ جمہوریت پسند لوگوں کے ساتھ کھڑا رہا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو سابق فوجی آمر ایوب خان کی کابینہ چھوڑ کر آئے تو کراچی پریس کلب نے بھٹو کو خوش آمدید کہا۔ مگر بعد میں جب وہ خود حاکم بنے اور کئی اخبارات پر پابندی عائد کی تو کراچی پریس کلب نے بھٹو کی داخلہ پر پابندی لگا دی اور اس کے بعد ان کی حکومت ختم کرکے انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اس طرح بھٹو دوبارہ کبھی کراچی پریس کلب میں داخل نہیں ہو سکے۔‘

فاضل جمیلی کے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں 200 سے زیادہ کراچی کے صحافیوں نے مشترکہ طور پر گرفتاری دی جو ایک تاریخ ہے۔

فاضل جمیلی کے مطابق: ’کراچی پریس کلب جہاں آمروں اور ظالموں کے خلاف کھڑا رہا وہاں اس نے مظلوموں کا ساتھ بھی دیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ