ایک جماعت دو چہرے: نواز جمہوریت پسند اور شہباز بہترین منتظم

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ ن میں نواز شریف بحیثیت وزیراعظم اپنی اتھارٹی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، جب کہ شہباز شریف محفوظ طریقے سے کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

نواز شریف چار اکتوبر، 2017 کو لاہور میں ن لیگ کے ورکر کنونشن میں اپنے بھائی شہباز شریف سے ہاتھ ملا رہے ہیں (اے ایف پی/عارف علی)

مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف اپنے قریبی حلقوں میں فیصلہ کرنے سے قبل زیادہ مشورہ کرنے والے سیاست دان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے مطابق ’سابق وزیراعظم کی یہ عادت ان کے جمہوری مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔‘ 

دوسری جانب ان کے چھوٹے بھائی  شہباز شریف ’شاندار منتظم‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ’انتظام چلانے والے جمہوری اقدار سے زیادہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے ادوارِ حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز اور ماضی میں شریف خاندان کے قریب رہنے والے لیگی رہنما صدیق الفاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نواز شریف مشورے سے آگے بڑھنے والے سٹیٹس مین ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ملازمین کی رائے لینے سے بھی نہیں جھجھکتے۔‘

مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر سے متعلق رائے کا اظہار کرتے ہوئے صدیق الفاروق کا کہنا تھا: ’شہباز شریف اعلیٰ درجے کے اِمپلیمنٹر ہیں اور فیصلے نافذ کرنے کے لیے بعض اوقات بے رحمی ضروری ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات میں زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔‘

دونوں بھائیوں کے مزاج یا کام کرنے کے انداز میں پایا جانے والا یہ تضاد ان کے سیاسی اطوار میں بھی جھلکتا ہے، جسے مسلم لیگ ن کے دو چہروں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

مختلف مقدمات میں سزا یافتہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لمبی لڑائی کے بعد نومبر 2019 میں عدالتی اجازت سے علاج کے لیے بیرون ملک سدھارتے ہیں اور بعدازاں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہیں۔ 

اس کے برعکس چھوٹے بھائی اور پارٹی کے مرکزی صدر شہباز شریف نہ صرف ملک میں موجود رہے، بلکہ دو سال بعد مبینہ طور پر ’اداروں کی مدد‘ سے ملک کے وزیراعظم بننے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔

تھوڑا اور ماضی میں جھانکیں تو 2018 کے انتخابات سے ایک ہفتہ قبل نواز شریف کو جیل میں چند روز ہی ہوئے تھے، جب شہباز شریف نے برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو ایک انٹرویو میں انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بننے کی صورت میں فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات بحال کرنے کے وعدے کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور بڑے میاں صاحب کے درمیان ایک سال سے جاری جھگڑے کے بعد ’آگے بڑھنے‘ کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں کسی بھی دوسری پاکستانی سیاسی جماعت کے برعکس پاکستان مسلم لیگ ن ایک منفرد خصوصیت کی حامل پارٹی  ہے، جو اسے ایک ہی وقت میں اسٹیبلشمنٹ نواز اور مخالف پالیسیوں پر عمل کرنے کے قابل اور بعض اوقات ’اداروں‘ کے لیے ’غیر موزوں‘ ہونے کے باوجود مخصوص حالات میں ’قابل قبول‘ بنا دیتی ہے۔

نواز شریف مسلم لیگ ن کا جمہوری اور اسٹیبلشمنٹ مخالف چہرہ ہے، جب کہ شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

سلمان غنی، سیاسی تجزیہ کار

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی پاکستان مسلم لیگ ن کی اسی منفرد خصوصیت کو اس کے دو الگ الگ چہروں سے تعبیر کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں بدلتے حالات کے ساتھ مختلف کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’کسی بھی سیاسی جماعت کا ایک مرکزی رہنما ہوتا ہے، جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ایک مرکزی لیڈر کے بجائے دو شخصیات چلاتی ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف مسلم لیگ ن کا جمہوری اور اسٹیبلشمنٹ مخالف چہرہ ہیں، جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ 

پاکستان میں کسی سویلین حکومت کی بقا کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ایک آشکار راز (اوپن سیکرٹ) ہے تاہم کسی حد تک اس پوشیدہ حقیقت کو باقاعدہ تصدیق کرنے والے بھی شہباز شریف ہی ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال وزیراعظم کی حیثیت سے سبکدوش ہونے کے چند روز بعد پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ’فوج کی حمایت کے بغیر حکومت ٹھیک طریقے سے نہیں چل سکتی۔‘

پاکستان میں ہائبرڈ حکومتوں کی موجودگی سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا تھا: ’پاکستان میں ہر حکومت کو فوج سمیت اہم ریاستی اداروں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور یہ وہی زمانہ تھا جب مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد لندن سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے نام لے کر اسٹیبلشمنٹ کے بعض ’کرداروں‘ پر ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا رہے تھے۔ 

’پاکستان کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں  (نواز اور شہباز) میں سے کس کا نقطہ نظر درست ہے۔‘

احمد بلال محبوب، صدر پلڈاٹ

سیاسی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی ضیغم خان کے مطابق شہباز شریف زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک  ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا اور اداروں کے ڈومین سے دور رہتے ہوئے حکومت چلانا چاہتے ہیں۔

’شہباز شریف سکیورٹی اداروں اور دفاع کے معاملات سے حتی الامکان دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

دوسری طرف سلمان غنی کی رائے میں نواز شریف ہر معاملے میں اپنی حیثیت اور اہمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں، جو کچھ حلقوں کو ہضم نہیں ہو پاتا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب ایک انٹرویو میں شریف برادران کے ’طریقہ واردات‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ہر مرتبہ بحیثیت وزیراعظم حالات کے مطابق جو کرنا چاہیے تھا، کیا جب کہ شہباز شریف زمینی حقائق کی بنیاد پر معاملات کو سنبھالتے رہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ شریف برادران کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کرنے کے انداز پر الجھن کا شکار نظر آئے۔

’پاکستان کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں (نواز اور شہباز) میں سے کس کا نقطہ نظر درست ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ضیغم خان کا کہنا تھا کہ دونوں بھائیوں کی سوچ میں فرق موجود ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن میں پالیسی کا منبع نواز شریف ہیں اور آخری فیصلہ ان ہی کا ہوتا ہے۔  

’اگرچہ شہباز شریف اپنی رائے پر زور دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی حتمی پالیسی نواز شریف کی مرضی ہی سے چلتی ہے۔

بقول ضیغم خان: ’دونوں بھائیوں کی سوچ میں بڑا واضح فرق موجود ہے لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ہوتا وہی ہے جو نواز شریف چاہتے اور کہتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے اصول (مسلم لیگ ن ویب سائٹ)

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اصول


ہم اپنے بانیوں کی پالیسی کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے ’مقاصد کی قرارداد‘ میں درج ہے۔

  • پوری کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستان کے عوام کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرنے کا اختیار ایک مقدس امانت ہے۔
  • پاکستان میں، ریاست اپنے اختیارات کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی، جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصول شامل ہیں، جیسا کہ اسلام نے بیان کیا ہے۔
  • جس میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو انفرادی اور اجتماعی میدانوں میں اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں جیسا کہ قرآن و سنت میں بیان کیا گیا ہے۔
  • جس میں اقلیتوں کے لیے آزادانہ طور پر اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے اور اس پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کا مناسب انتظام کیا جائے گا۔
  • جس میں اب پاکستان میں شامل یا اس کے ساتھ الحاق میں شامل علاقے اور اس طرح کے دوسرے علاقے جو اس کے بعد پاکستان میں شامل ہوں گے یا اس کے ساتھ الحاق کیے جائیں گے، ایک فیڈریشن تشکیل دیں گے۔
  • جس میں اکائیاں اپنے اختیارات اور اختیارات پر ایسی حدود اور حدود کے ساتھ خودمختار ہوں گی، جو کہ تجویز کی جائیں۔
  • جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی، بشمول حیثیت کی برابری، مواقع اور قانون کے سامنے، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، آزادی فکر، اظہار، عقیدہ، عبادت، انجمن، قانون اور عوامی اخلاقیات کے تابع۔
  • جس میں اقلیتوں، پسماندہ اور ترقی پذیر طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔
  • جس میں عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ اور احترام کیا جائے گا۔
  • جس میں وفاق کے علاقوں کی سالمیت، اس کی آزادی اور اس کے تمام حقوق بشمول اس کے خود مختار حقوق خشکی، سمندر اور ہوا پر حفاظت کی جائے گی تاکہ پاکستانی عوام خوشحال ہو کر دنیا کی اقوام میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کر سکیں اور بین الاقوامی امن و ترقی اور انسانیت کی خوشی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

مسلم لیگ ن کا مؤقف

شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ نواز ہونے سے متعلق دریافت کرنے پر پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے صریحاً تردید کے بجائے گول مول انداز میں کہا: ’شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے دوسرے رہنماؤں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’اسٹیبلشمنٹ ریاست کا لازمی جزو ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ ہی ریاست کو تشکیل دیتی ہے۔‘

پرویز رشید نے مزید کہا کہ ان کی جماعت عام آدمی کی پارٹی ہے، جس کا ثبوت مختلف انتخابات میں اس کے حق میں پڑنے والے ووٹ ہیں۔

’مسلم لیگ ن جس شان و شوکت سے چل رہی ہے، شریف فیملی کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔‘

صدیق الفاروق، رہنما مسلم لیگ ن

ماضی میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما صدیق الفاروق نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت میں تمام فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں اور فرد واحد کی رائے حتمی نہیں ہوتی۔

بقول صدیق الفاروق: ’میاں نواز شریف پارٹی میں ہر کسی سے مشورہ کرتے ہیں اور اجتماعی فیصلوں کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے مثبت اور منفی پہلو ضرور دیکھتے ہیں۔‘

سیاست نام ہے امکانات کی سائنس کا 

پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ اور ملک کی دوسری کئی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں پیش پیش رہنے کا اعزاز رکھتی ہیں اور یہی معاملہ ماضی میں مسلم لیگ ن کا بھی رہا۔ 

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 90 کی دہائی کے آخر اور 2000 کے عشرے میں مسلم لیگ ن کی سوچ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، جس کے دوران اس نے مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹی سے ایک عوامی جماعت تک کا سفر طے کیا۔   

صدیق الفاروق کا کہنا تھا: ’میاں صاحب کو بہت قلق رہتا تھا کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کے لیے جو پالیسیاں ان کی حکومتیں بناتی ہیں، ان کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ ان ہی چیزوں نے ان کی سوچ کو تبدیل کیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی سوچ میں ٹرننگ پوائنٹ آیا تو نواز شریف نے ملک کے اندر محترمہ بے نظیر بھٹو اور دوسری سیاسی قوتوں سے سیاسی تناؤ کو کم کیا اور ہمسایہ ملک انڈیا سے بھی تعلقات میں اعتدال کا عندیہ دیا۔‘  

پاکستان کے مخصوص حالات میں جہاں سیاسی جماعتوں کو کھل کر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا، ایک پارٹی کا یوں اسٹیبلشمنٹ نواز اور مخالف چہرے رکھنے کو اس کی بقا کی جنگ کا حصہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

شاید مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کو غیر جمہوری ادوار میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی طاقتوں کے منہ سے نئے امکانات کا نوالہ چھیننے کے دقیق کام کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔   

مسلم لیگ ن اور شریف خاندان

جنوبی ایشیا کے کئی دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں میں خاندانوں کا غلبہ اور موروثیت کا عنصر اظہر من الشمس ہے اور یہی حقیقت مسلم لیگ ن پر بھی صادق آتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلم لیگ ن اور شریف خاندان لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں جب کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی شخصیات اپنے کنبے  کے بزرگ ہونے کے ناطے اہمیت کی حامل ہیں اور یہی حیثیت انہیں خود بخود جماعت میں بھی حاصل ہو جاتی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق الفاروق نے جماعت پر شریف خاندان کی بالادستی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کا یہ انداز پاکستان کے علاوہ انڈیا، بنگلہ، دیش اور سری لنکا میں بھی قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’ان ملکوں میں خاندان ہی سیاسی جماعتوں کو چلاتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ عوام اسے ایسے ہی پسند کرتی ہے۔‘

صدیق الفاروق نے اپنے مؤقف کے حق میں ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ 1993 کے انتخابات میں نواز شریف نے جیتی ہوئی دو نشستوں میں سے ایک خالی کی اور اس کے لیے پارٹی کے ایک کارکن کو ٹکٹ دیا۔

’لیکن حلقے کے لوگوں نے میاں صاحب سے شریف خاندان کے کسی فرد کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا اور پھر با امر مجبوری ضمنی انتخاب میں عباس شریف کو میدان میں اتارا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب تک فیصلوں کا حق عوام کے پاس ہے تو سیاسی جماعتوں میں خاندانوں کا اثر رسوخ یوں ہی چلتا رہے گا۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام مخصوص سیاسی جماعت کی قیادت ایک مخصوص خاندان سے دیکھنا چاہتی ہے۔‘

شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے صدیق الفاروق کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن جس شان و شوکت سے چل رہی ہے، شریف فیملی کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔‘

دوسری طرف پرویز رشید نے ان کی جماعت میں کسی خاندان یا فرد کی بالادستی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن اجتماعی قیادت کا نام ہے، جہاں اجتماعی مشاورت ہوتی ہے۔ 

انہوں نے فروری کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں چند روز قبل تک ہونے والے مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ساری کارروائی عوام کے سامنے ہوئی، جس میں تمام اراکین نے حصہ لیا اور باہمی مشاورت سے فیصلے کیے گئے۔

’اگر ہماری جماعت میں شریف خاندان بالادست ہوتا تو آنے والے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ اس طرح مشاورت سے نہ دیے جاتے۔‘

مسلم لیگ ن میں موروثیت کی موجودگی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’ہماری جماعت میں انتخابات ہوتے ہیں اور اسی طریقے سے عہدیدار چنے جاتے ہیں۔ اسے آپ موروثیت نہیں کہہ سکتے۔‘

سینیئر صحافی سلمان غنی کا مسلم لیگ ن میں موروثیت کی موجودگی سے متعلق سوال پر کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن پر جب بھی برا وقت آتا ہے تو صرف شریف خاندان ہی سامنے ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر شریف خاندان کے لوگ جیلوں کو جاتے اور مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کا قیام اور اسٹیبلشمنٹ

عام طور پر مسلم لیگ ن کو ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن اس الزام سے پاکستان کی کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت مبرا نہیں ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سابق صدر جنرل ایوب خان کا نام جوڑا جاتا ہے، تو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اقتدار تک پہنچنے کو ایک سے زیادہ فوجی افسران کا مرہونِ منت گردانا جاتا ہے۔  

نواز شریف کے ایک طویل انٹرویو پر مشتمل سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ’غدار کون؟‘ میں سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ 70 کی دہائی میں پنجاب کا وزیر خزانہ بننے سے قبل ان کی اس وقت کے صوبائی گورنر جنرل جیلانی سے کبھی ملاقات بھی نہیں تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں ان کی ایک فوجی افسر بریگیڈیئر قیوم سے شناسائی تھی، جنہوں نے شریف خاندان کی اکانومی، فنانس اور انڈسٹری کے میدانوں میں سمجھ بوجھ کی بنا پر جنرل جیلانی کو انہیں (نواز شریف کو) صوبائی کابینہ میں بحیثیت وزیر خزانہ شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اسی کتاب میں سہیل وڑائچ کے فوج کی مدد سے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے الزام سے متعلق سوال پر نواز شریف کہتے ہیں: ’دیکھیں جی! اسٹیبلشمنٹ کا ایک خاص کردار پاکستان میں رہا ہے۔۔۔ کوئی سیاست دان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں رہا کیونکہ جب سے ہمیں آزادی ملی ہے، اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی سیاست میں زبردستی ایک کردار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔‘

اسی سوال کے جواب میں نواز شریف آگے چل کر فرماتے ہیں: ’دیکھنا یہ چاہیے کہ اس شخص کا وقت آنے پر انفرادی طور پر کردار کیا رہا ہے؟ اس سے آپ اس انسان کا اندازہ لگائیں کہ اس کا کیا کردار ہے، اس کی کیا سوچ ہے، کیا ذہن ہے جمہوریت کے بارے میں، ان کے دعوے اور نظریات کیا ہیں اور عملی طور پر وہ کیسا ہے۔‘

ملک کی بانی جماعت پاکستان مسلم لیگ جنرل ضیا الحق اور اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات کے باعث تقسیم ہونا شروع ہوئی۔

محمد خان جونیجو کے حمایتیوں کی جماعت الگ ہوئی اور اس دھڑے کی سربراہی حامد ناصر چٹھہ کے نام آئی جب کہ باقی ماندہ جماعت کا نام تبدیل کر کے پاکستان مسلم لیگ نواز (مسلم لیگ ن) رکھا اور اس کا سربراہ میاں محمد نواز شریف کو بنایا گیا۔

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی پیدائش کا مقصد فوج کی ملکی سیاست میں مداخلت کی حمایت اور پیپلز پارٹی کے خلاف ایک ایسا گروہ بنانا تھا، جس پر آرمی اعتماد کر سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جونیجو صاحب نے ضیا الحق کی مرضی کے برعکس سیاسی عمل کو آگے بڑھایا اور اس کی انہیں سزا دی گئی، جس میں اس گروہ (مسلم لیگ ن) کا اہم کردار تھا۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے قائدین کا کسی ڈکٹیٹر سے کوئی تعلق نہیں تھا، تاہم بعض رہنماؤں نے اس وقت سیاست شروع کی جب ملک میں ڈکٹیٹرشپ تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: ’جس طرح معاشرے کے شعور میں پختگی آتی ہے اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی اپنی سوچ میں پختگی لاتی ہیں اور یہی معاملہ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی رہا ہے۔

’سیاست نام ہی وقت کے تقاضوں کا جواب دینا اور ان کا حل نکالنا ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر ترقی کی منازل طے کی ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کا نظریہ

مسلم لیگ ن کی ویب سائٹ پر نظریے کا ذکر نہیں ہے، تاہم ویژن (اولین مقصد) کے ذیل میں جماعت کی 2013 کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے کارنامے درج ہیں، جب کہ اسی ویب سائٹ پر موجود پارٹی کے اصول یہاں تصویری شکل میں دکھائے گئے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں 1990 اور 1997 کے درمیان مسلم لیگ ن نے ایک اسلامی اور کاروبار کی حامی جماعت ہونے پر زور دیا۔ 

تاہم 1999 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اس کی حکومت گرنے کے بعد مسلم لیگ ن نے 2000 کی دہائی کے دوران خود کو ایک کٹر جمہوریت نواز جماعت کے طور پر بحال کیا۔

پارٹی کے سینیئر رہنما صدیق الفاروق کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نظریاتی طور پر ایک اسلام پر یقین رکھنے والی اعتدال پسند جمہوری جماعت ہے، جس کا نصب العین معیشت کی بہتری اور گڈ گورننس کے ذریعے ترقی کی منازل کو طے کرنا ہے۔

نائب صدر اور سابق سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کا نظریہ عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی و خوشحالی پر مبنی ہے۔

تاہم سیاسی تجزیہ کار مسلم لیگ ن کو نظریاتی جماعت قرار نہیں دیتے بلکہ اس کی اہمیت کو سیاسی اور انتخابی حوالوں سے ناپتے ہیں۔

ماہرین موجودہ زمانے میں پاکستان کی عمومی سیاست کو بغیر کسی نظریے کے قرار دیتے ہیں۔ 

رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’اس دور میں نظریات کی سیاست نہیں ہو رہی۔‘

 

Made with Visme

ضیغم خان کے مطابق پاکستان میں کسی سیاسی رہنما نے اپنی جماعت کو بطور ادارہ کھڑا نہیں کیا اور یہی المیہ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی رہا ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن پراجیکٹس کے نام پر سیاست کرتی ہے اور اپنی سیاست کو قائم رکھنے کے لیے ترقیاتی کاموں کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 

ضیغم خان نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن ریاستی وسائل سے اپنے حامیوں اور ساتھ چلنے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

’دوسرے صوبوں کے لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے شہر لاہور، گوجرانوالہ یا فیصل آباد جیسے بن جائیں اور اس کی وجہ پنجاب کی ترقی ہے ۔‘

پرویز رشید، نائب صدر مسلم لیگ ن

انہوں نے مزید کہا: ’مسلم لیگ ن میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دوسرے ووٹ بھی پکڑ لیتی ہے اور ان میں مذہبی ووٹ سر فہرست ہے۔

’آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ ن ایک کیچ آل (catch all) پارٹی ہے۔‘

پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن ’رائٹ آف دا سینٹر‘ کی جماعت ہے، جس کی شناخت دائیں بازو کی نہیں لیکن نظریات کا جھکاؤ اس طرف ضرور ہے۔

انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نجکاری اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے متمول طبقے اور سرمایہ داری کا تحفظ کرتی ہے اور معاشی مساوات میں سرعت سے گریز کرتی ہے تاکہ سرمایہ دار پریشان نہ ہو پائیں۔

’اس پارٹی میں قدامت پسندی کا عنصر بھی موجود ہے، جس کے تحت یہ پرانی روایات اور مذہبی رسم و رواج کی حفاظت کرتی ہے۔‘

مسلم لیگ ن: ترقی کا استعارہ

مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے بطن سے وجود پانے والی اور اس کے بعض رہنماؤں کے اسٹیبلشمنٹ نواز ہونے جیسے الزامات کے باوجود مسلم لیگ ن کی پہچان اس کے ادوار میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہے، جن کے مکمل ہونے کی دشمن بھی تعریف کرتے ہیں۔

90 کی دہائی کی ابتدا میں شروع ہونے والی موٹر ویز کی تعمیر ہو یا 18-2013 کی حکومت کے دوران سی پیک شروع کرنا، لوڈ شیڈنگ کے جِن کا خاتمہ ہو، پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ میٹرو بسیں، اورنج ٹرین، انڈر پاس، سڑکیں اور ان جیسے بیسیوں منصوبے مسلم لیگ ن اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرتی ہے۔

پرویز رشید کا کہنا تھا: ’دوسرے صوبوں کے لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے شہر لاہور، گوجرانوالہ یا فیصل آباد جیسے بن جائیں اور اس کی وجہ پنجاب میں ہونے والی ترقی ہے جو دوسرے صوبوں میں رہنے والوں کو اپنا گرویدہ بناتی ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی ویب سائٹ پر ’پائیدار اقتصادی ترقی کی کارکردگی 18-2013‘ کے تحت 125 منصوبوں کی فہرست دی گئی ہے، جو نواز شریف کی حکومت نے پاکستان میں شروع کیے اور جن میں اکثر مکمل ہو چکے ہیں۔

مسلم لیگ ن اور وفاداریوں کی روایات

حالیہ مہینوں میں پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں کا پارٹی سربراہ عمران خان کا ’دباؤ‘ کے تحت ساتھ چھوڑ دینا، پاکستان میں انہونی بات نہیں ہے۔

70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو پر مارشل لا کی افتاد ٹوٹی اور وہ جیل گئے تو پیچھے سڑکوں پر اپنے لیڈر کے حق میں احتجاج کرتے صرف نچلی سطح کے ورکرز ہی نظر آئے، جنہوں نے جیلوں کی صعوبتوں کاٹیں اور کوڑے تک کھائے۔

پی ٹی آئی کے محض مٹھی بھر مرکزی رہنماؤں کے علاوہ صرف تیسری اور چوتھی سطح کے سینکڑوں کارکن ہی جیلوں میں بند اور مقدمات کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں۔

مشکل وقت میں جماعت کے مرکزی رہنما کا ساتھ دینے کی مثالیں صرف مسلم لیگ ن میں ہی نظر آتی ہیں، جس کے لیڈروں نے اس سلسلے میں تاریخ رقم کی۔

جنرل پرویز مشرف اور پی ٹی آئی کے ادوار میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے علاوہ کئی دوسرے رہنماؤں پر مقدمات قائم ہوئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا لیکن مجال ہے جو مسلم لیگ ن کے کسی لیڈر نے جماعت چھوڑنے، نواز شریف سے راہیں جدا کرنے، پارٹی عہدے سے استعفیٰ دینے یا سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہو یا ملک سے باہر گئے ہوں۔

نواز شریف کے ساتھیوں کی بے مثال وفاداری کی وضاحت کرتے ہوئے پرویز رشید، جنہوں نے خود مشرف حکومت کے دوران بدترین تشدد کا سامنا کیا، کا کہنا تھا کہ اپنی سیاست کے ساتھ مخلص سیاست دانوں کو کوئی حربہ راستے سے ہٹا نہیں سکتا۔

انہوں نے نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ خود سچے اور مخلص ہیں تو دوسرے سچے اور مخلص لوگ آپ کے ساتھ ملتے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے علاوہ مسلم لیگ ن کے دوسرے کئی رہنماؤں نے اپنے آپ کو ’لیڈر شپ مٹیریل‘ ثابت کیا ہے۔

آٹھ فروری اور مسلم لیگ ن

آئندہ ماہ پاکستان میں 11 ویں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جن میں مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت سمجھا جاتا ہے، تاہم سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی مبینہ مقبولیت اس کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

مارچ 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں جنم لینے والی پی ڈی ایم حکومت بہت اچھا پرفارم نہیں کر پائی تھی، جو اس جماعت کے لیے ایک منفی پوائنٹ بن گیا ہے۔

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی صورت میں پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں رہ چکی ہیں، جب کہ اس عرصے کے دوران حزب اختلاف میں صرف ملک کی عوام تھی۔

’2018 کے بعد سے کوئی جماعت ڈیلیور نہیں کر پائی اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک فروری کے الیکشنز کے لیے انتخابی ماحول بن نہیں پا رہا۔ سب پریشان ہیں کہ عوام کو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے۔‘ 

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آٹھ فروری کے انتخابات میں اپنے ماضی کے ساتھ عوام کے پاس جائے گی اور ووٹرز ان کے ملکی ترقی کے ایجنڈے کو جوق در جوق ووٹ دیں گے۔

’ہمارے پاس عوام کو دینے کے لیے صرف ترقیاتی کام ہیں، جو ہم نے ماضی میں کیے اور مستقبل میں کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام مسلم لیگ ن کے ایجنڈے سے بخوبی واقف ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد یہ جماعت ملکی معیشت کو صحیح راہ پر ڈالنے کے بعد ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما انجینیئر خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ عوام ملک میں بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے نواز شریف کو ووٹ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی گذشتہ حکومت نے ملک سے لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے لائی۔

’نواز شریف کے کام کرنے کے انداز کو پوری قوم ماضی میں تسلیم کر چکی ہے۔ اس مرتبہ مسلم لیگ ن ادھورے منصوبے مکمل کرنا چاہتی ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست