رابطہ عالم اسلامی جو اسلاموفوبیا سمیت کئی محاذوں پر متحرک

رابطہ عالم اسلامی اپنے مالیاتی انتظام میں اپنے اوقاف پر انحصار کرتی ہے۔ رابطہ کی ’اوقاف سے‘ سرمایہ کاری بھی ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔

دنیا میں ایک ایسی اسلامی تنظیم موجود ہے جو مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم برادری کو تقسیم کرنے والے عوامل کا سدباب کرنے کے لیے 1962 سے مصروف ہے۔

اس عالمی تنظیم کا نام رابطہ عالم اسلامی (مسلم ورلڈ لیگ) ہے جس کے ارکان تمام اسلامی ممالک ومسالک سے ہیں۔ اس کا مرکزی دفتر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جو اسلام کی حقیقت کو واضح اور اقوام کے مابین دوستی کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔

یہ تنظیم ایک دستور ساز کونسل کے زیر انتظام ہے جو سرکردہ اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 60 ارکان پر مشتمل ہے۔ ایم ڈبلیو ایل کا روزمرہ کا انتظام ایک سیکرٹری جنرل سنبھالتا ہے، جو دستور ساز کونسل کو رپورٹ کرتا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ اس تنظیم کے موجودہ سیکریٹری جنرل ہیں اور آج کل پاکستان کے نو روزہ دورے پر ہیں۔ وہ عالم اسلام کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور دنیا بھر میں ان کی خدمات کے نتیجے میں انہیں کئی اعلی ترین اعزازات سے نوازا گیا ہے۔

ڈاکٹر العیسیٰ نے 2019 میں مشہور امریکی جریدے ’نیوز ویک‘ میں ایک مضمون لکھ کر اپنا ایجنڈا واضح کرتے ہوئے لکھا تھا: ’مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے میں نے پوپ فرانسس کے ساتھ بین المذاہب تفہیم کو فروغ دینے کے لیے ویٹیکن کا سفر کیا ہے۔‘

’میں نے پیرس کے گرینڈ سناگوگ اور امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کا دورہ کیا۔ میں نے امریکی انجیلی مسیحی رہنماؤں کے اعلیٰ سطح کے وفد کو سعودی عرب میں خوش آمدید کہا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں ایسے متنازع کام کیوں کرتا ہوں؟ ان سب میں کیا مشترک ہے؟‘

’میں ان سے کہتا ہوں: یہ میرے اس مقدس فریضے کی عکاسی کرتے ہیں کہ میں اسلام کو متعدل اور امن کے سچے مذہب کے طور پر پیش کروں۔ اس کا منبع میرا ایک اسلامی رہنما کی حیثیت سے میرا وہ حلف ہے کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اس میں ذمہ دارانہ قیادت کا مظاہرہ کروں۔‘

رابطہ کی بنیاد

مؤتمر عالم اسلامی کی مکہ مکرمہ میں 18 مئی 1962 کو منعقد ہونے والی کانفرنس کی قرارداد کے نتیجے میں رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔ عرب نیوز کے مطابق تنظیم کو دفتر مکہ مکرمہ ہے اور دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اس کا اثر ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے تمام اسلامی ممالک اور فرقے بلا تفریق رنگ و نسل رکن ہیں۔

جنرل سیکرٹریٹ

یہ تنفیدی ادارہ رابطہ کے معاملات اور سرگرمیوں کی براہ راست نگرانی کرتا ہے اور سیکرٹری جنرل، سیکرٹریز، معاونین، رابطہ ملازمین اور منسلک افراد کی معاونت سے، رابطہ سپریم کونسل کی طرف سے جاری شدہ منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔

مالی وسائل

ایم ڈبلیو ایل کو سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ رابطہ عالم اسلامی اپنے مالیاتی انتظام میں اپنے اوقاف پر انحصار بھی کرتی ہے۔ رابطہ کی ’اوقاف سے‘ سرمایہ کاری بھی ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔

ڈاکٹر محمد العیسی کو اعتدل پسندی کے فروغ کی کاوشوں کے اعتراف میں ملائیشیا کے بادشاہ کی جانب سے ایک بڑی تقریب میں ملک کے سب سے بڑے اعزاز (فارس الدولہ) کے اعلی ترین لقب: (داتو سری) سے نوازا گیا۔ انہیں 2022 کے حج کا خطبہ دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

رابطہ عالم اسلامی کئی اہم بین القوامی فورمز پر مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں اقوم متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کمیٹی اور غیر حکومتی تنظیموں کے گروپ میں بطور مبصر رکن، اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاسوں، وزرائے خارجہ اور تنظیم کی تمام کانفرنسز میں بطور مبصر رکن، تربیت وتعلیم وثقافتی امور کی بین الاقوامی تنظیم (یونیسکو) اور بہبود اطفال کی تنظیم (یونیسیف) کی مسقل رکنیت حاصل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رابطہ عالم اسلامی کے قیام کا ایک دوسرا اہم مقصد اسلامی عقائد و تعلیمات کی تشریح اور ان کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور اسلام کے متعلق اغیار کے اعتراضات کو بہتر طریقہ سے زائل کرنا بھی شامل ہے۔

پاکستان میں سعودی حکومت کے تعاون سے یہ ادارہ نہ صرف مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے بلکہ یہ ملک میں امدادی و فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش ہے۔

ملک بھر میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی اس تنظیم نے سعودی حکومت کے تعاون سے سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان فراہم کیا اور بےگھر لاکھوں لوگوں کے لیے ہزاروں خیمے بمعہ ساز و سامان مہیا کیے۔ اس سے قبل رابطہ عالم اسلامی نے کورونا کے دوران بھی پاکستان کو امداد پہنچائی اور ملک بھر میں میڈیکل کیمپ قائم کیے اور ویکسین مہیا کی۔

حلف نامہ

تنظیم کا رکن بننے کے لیے ایک حلف نامہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد اس تنظیم کے مقاصد اور سمت واضح کرنا ہے۔ حلف میں اقوام عالم کو عمومی طور پر انسانیت کی فلاح اور اس کی بھلائی اور ان کے درمیان سماجی انصاف، بہتر انسانی معاشرے کی تخلیق میں مسابقت کی دعوت دینے کا عزم ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ کسی کے کام کے بگاڑ، کسی پر تسلط اور نہ کسی پر غلبہ کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’ہر بھلائی کی طرف دعوت دینے والے شخص کی حمایت کریں گے۔‘

تنظیم نے مئی 2019 میں میثاق مدینہ کی بنیاد پر تیار میثاقِ مکہ مکرمہ کو بھی دستاویزی شکل میں جاری کیا جس میں عصرِ حاضر کے اہم مسائل کو اسلام کے وسیع افق کے تناظر میں دیکھاگیا ہے۔ یہ دستاویز مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے قبلہ کے زیر سایہ نامور مفتیان عظام اور علمائے کرام کی سرپرستی میں تیار ہوئی تھی۔

اس چودہ صفحات پر مبنی دستاویز کو اگلے سال یعنی نومبر 2020 میں نیجر میں اسلامی وزار خارجہ کے اجلاس میں تائید کی گئی۔

شعبہ جات

رابطہ کے جن شعبہ جات کی اب تک تشکیل کی جا چکی ہے ان میں اشاعت وترویج قرآن کے لیے ایک کونسل ہے جو مسلمانوں کے بچوں میں قرآن سے لگاؤ پیدا کرنے کے لیے حفظ قرآن کے مقابلوں کا اہتمام کرتی ہے، تعلیمی کونسل ہے جو دنیا بھر میں مسلم ممالک کے علاوہ مسلم اقلیتوں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کاخیال رکھتی ہے۔

اسی طرح، چیئرٹی فاﺅ نڈیشن، اقصی مسجد فاؤنڈیشن، انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن، قرآن وسنت کے سائنسی انکشافات اور نشانیوں پر کمیشن، ورلڈ سپریم کونسل برائے مساجد اور الفقہ کونسل کی شکل میں کمیٹیاں فعال ہیں۔ پاکستان سے دو علمی شخصیات مولانا تقی عثمانی فقہ کونسل جبکہ ڈاکٹر انیس احمد مساجد کمیٹی کے رکن رہے ہیں۔

اسلام دشمن عناصر کی طرف سے مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات اور اسلام کا غلط تصور پیش کرنےوالے عوامل کے تدارک کے لیے تقابل ادیان کے شعبہ کے تحت علمی وتحقیقی کام بھی کر رہی ہے۔ رابطہ کے فورم پر یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں مذاہب کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر کانفرنسز منعقد کرائی گئی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑی کانفرنس سوئزرلینڈ میں فروری 2020 کو منعقد کی گئی جس کے افتتاحی اور اختتامی اجلاس سمیت آٹھ نشستوں میں 48 مقررین اور اہل علم نے خطابات کیے۔ ان میں تقریباً نصف 23 مدعوین نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کے دور دراز علاقوں جیسے امریکہ، کینیڈا، انڈیا، انڈونیشیا، جاپان اور آسٹریلیا سے بھی تشریف لائے تھے۔

اس موقع پر اپنے کلیدی خطاب میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلامی ممالک میں تعلیمی نصاب کو ان تمام عبارات سے پاک کرنا ہوگا جو نفرت اور عنصریت پیدا کر رہی ہیں اور معاشرے میں علیحدگی کے رجحان کو پروان چڑھا رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ