حکومت کا سوشل میڈیا کے ’غلط‘ استعمال کو روکنے کے لیے کارروائی کا اعلان

وفاقی حکومت کی جانب سے کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے والوں کی پکڑ دھڑ جاری ہے۔ تازہ بیان سے اس میں تیزی آنے کا خدشہ ہے۔

واد چوہدری نے اعتراف کیا کہ کچھ ایسی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا کو فتویٰ دینے، دھمکیاں دینے اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے والوں کے لیے استعمال کیا اور آنے والے ہفتوں میں اس پر سخت کریک ڈاؤن کریں گے۔

حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی کیونکہ بقول ان کے ’ہم پاکستان میں قوانین کی حاکمیت کو یقینی بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ نفرت کے پرچار کا پہلا قدم انتہاپسندی اور دوسرا دہشت گردی ہے لیکن دہشت گردی کا بیچ انتہا پسندی میں بویا جاتا ہے، لہٰذا جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے وہ ایک نظام کے تحت آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے والوں کی پکڑ دھڑ جاری ہے۔ لاہور کے صحافی رضوان رضی اس سلسلے کی تازہ کڑی تھی جنہیں سوشل میڈیا پر اپنی بیان بازی پر گرفتار کیا گیا اور بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے ٹوئٹر کمپنی کے ذریعے کئی سرکردہ صحافیوں کو نوٹس بھی بھیجے ہیں۔

فواد چوہدری نے اعتراف کیا کہ کچھ ایسی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا کو فتویٰ دینے، دھمکیاں دینے اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے والوں کے لیے استعمال کیا اور آنے والے ہفتوں میں اس پر سخت کریک ڈاؤن کریں گے اور ہم سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کی اجازت نہیں دیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے میں بات چیت یا بحث ایک بنیادی شرط ہے لیکن ’ہمارے یہاں شدت پسند طبقے کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ہم نے بات چیت ہی نہیں ہونے دینی، جو میری رائے ہے بس وہی حتمی ہے جو بحث کرے اس پر فتوے جاری کروائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک رائے تب ہی بن سکتی ہے جب دوسرے کو بولنے کی اجازت دیں گے لیکن یہاں ریاست کا کردار بہت اہم ہے، کوئی ریاست کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دوسروں کی آزادی سلب کریں۔

فواد چوہدی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں ہر چیز کی آزادی ہے لیکن ایسا نہیں ہے، ہر کسی کی آزادی کی ایک حد ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی آزادی سلب نہیں ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں قوانین ہے، ان پر عمل درآمد کروانا ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ جو ہمارے سیاسی و سکیورٹی حالات اسے پورا نہیں کر رہے تھے لیکن اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین کو نافذ کریں اور کسی کو نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہیں دیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے غیرملکی میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کو کافی حد تک باضابطہ بنایا ہے اور انہوں نے عام میڈیا پر اس طرح کے بیانیے کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا ہے۔ ’ہم نے ایک میکانزم تیار کرلیا ہے جہاں ہم سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز بیانیے کو کنٹرول کر پائیں گے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا عام میڈیا کو ٹیک اوور کر رہا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ ہم اسے ریگولرائز کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں دیکھا کہ جب بھی کوئی غیر معمولی یا فرقہ وارانہ تنازع شروع ہوئے تو وہ پورے ملک تباہ و برباد ہوگئے اور ٹکڑوں میں بٹ گئے لیکن پاکستانی معاشرے کی برداشت کی تاریخ بہت بڑی ہے جس کی وجہ سے وہ اس تنازع سے باہر آنے کے قریب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) لارہے ہیں، جس کا مقصد پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قوانین نافذ کرسکیں۔

تاہم اکثر صحافتی تنظیمیں اور چینل مالکان نے اس نئی اتھارٹی کے قیام کی مخالفت کی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ضروری تھا کہ ہم سوشل میڈیا کو مانیٹر کرسکیں، وہاں جو جعلی اکاؤنٹس ہیں انہیں پکڑ سکیں اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کا ہے اور کسی فرد کو اس کا اختیار نہیں دے سکتے اور ’ہم جلد ایک بڑا کریک ڈاؤن کا آغاز کریں گے۔‘

سوشل میڈیا ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے سوشل میڈیا اب پاکستان میں اتنا آذاد نہیں جتنا ماضی میں تھا۔ اس تازہ سرکاری دھمکی سے آذادی اظہار رائے پر مزید اثر پڑ سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل