’کشمیر میں بھارتی آپشن ختم ہو رہے ہیں‘

بھارتی اخبار’دی ہندو‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ 100 دن سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی یہ علاقے ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔

کیاکشمیر کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوئی پیمانہ موجود ہے؟ (اے ایف پی)

بھارتی اخبار’دی ہندو‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی کے پاس اپنے زیرانتظام جموں و کشمیر میں آپشن ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

مضمون کے مطابق عالمی برادری کی نظر میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو درست ثابت کرنے کی کوشش سے پہلے حکومت کو ملک کے اندر دل جیتے ہوں گے۔

مضمون میں مزید کہا گیا کہ پانچ اگست کو بھارت کے زیراتنظام جموں و کشمیر اور لداخ کی نیم مختار حیثیت ختم کر کے دونوں علاقوں کو براہ راست مرکزی حکومت کے انتظام میں دے دیا گیا لیکن 100 دن سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی یہ علاقے ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔

 کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں کرفیو نافذ ہے اور مواصلاتی ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ بیرونی دنیا سے کٹا ہوا ہے اس وجہ سے وہاں کے حقیقی حالات کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

حقیقت کو پرکھنے کا پیمانہ

مضمون کے مطابق یہ قیاس آرائی عام ہے کہ اس وقت بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سکوت طاری ہے، اس کے پردے پیچھے گہری بےچینی اور غصہ چھپا ہوا ہے جس کا اظہار تشدد کے گاہے بگاہے ہونے والے واقعات میں کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس صورت حال کا ایک واضح ثبوت گذشتہ ماہ یورپی پارلیمنٹ کےکچھ ارکان کےدورہِ سری نگر کے موقعے پر سامنے آیا جس دوران پورا شہر بند تھا اور تشدد کے اکادکا واقعات بھی ہوئے۔

حکام کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے کہ کشمیر میں اس وقت ہونے والے تشدد کے واقعات پانچ اگست سے پہلے ہونے والے واقعات سے کم ہیں لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آیا کشمیر کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوئی پیمانہ موجود ہے؟

مضمون میں مزید لکھا گیا کہ دعوؤں اور مخالفانہ دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے قابل فخر ورثے پر کاری ضرب لگی ہے کیونکہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت کئی کشمیر ی رہنما قید ہیں اور علاقے میں کرفیو نافذ ہے یہ صورت حال برقرار رہے گی۔

کچھ اچھا کچھ برا

باجود اس کے کہ کشمیر میں عوام سے رابطے کی بڑی مہم شروع کی گئی ہے لیکن اب واضح ہو گیا ہے کہ اس مہم کے وہ نتائج سامنے نہیں آئے جن کی وزیراعظم نریندرمودی اور بھارتی حکومت کو امید تھی۔

مضمون میں کہا گیا کہ بلاشبہ کچھ اچھی باتیں بھی ہیں، اکثر یورپی ملکوں اور کچھ اتحادی ملکوں نے کشمیر میں بھارتی اقدامات کو براہ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔

اسی طرح کچھ ناکامیاں بھی ہیں، جرمن چانسلر اینگلامیرکل جیسی ممتاز رہنما نے تشویش ظاہر کی کہ کشمیر یوں کے حالات اچھے اور پائیدار نہیں ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کشمیری عوام کو کئی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

 کمیشن نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے زیرانتظام کشمیر میں موجودہ صورت حال ختم اور لوگوں کے حقوق بحال کرے۔

مضمون کے مطابق بھارتی حکومت کے لیے عالمی رائے اور یہ حقیقت کہ کشمیر 1994 کے بعد ایک بار پھر عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آیا ہے، اس کے لیے یہ بات واقعی تشویش ناک ہے کہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کا ریکارڈ اور جمہوری ساکھ داؤ پر لگ گئے ہیں۔

اطلاعات اور شناخت کے مسائل

ایسے افراد جو کشمیر کے موجودہ حالات کا سیدھا سادہ جواب چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی صورت حال الجھا دینے والی ہے کہ مشکوک قسم کی توجیہات پیش کرنے کی بجائے حکومت سیدھی طرح کیوں نہیں بتاتی کہ اس نے کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے کیا حاصل کیا؟

بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام، بھارتی شہریوں اور دنیا کو بتائے کہ اس کے پاس مستقبل میں شورش زدہ علاقے کے لیے کیا منصوبہ ہے؟ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے جمہوری اقدار کی پاسداری لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہو گی۔ بھارتی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آئین سے آرٹیکل 370 تو ختم کر سکتی ہے لیکن کشمیریوں کی شناخت ختم نہیں کر سکتی۔

جمہوریت کا سوال

مضمون میں حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ بعض ممالک کی طرف سے کشمیر میں بھارتی اقدامات کی مخالفت کی صورت میں بھارت کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ترکی اور ملائشیا نے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھارتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ان ممالک سے رابطے میں باہمی تعلقات پر زد نہیں پڑنی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا