کشمیر کا سو روزہ لاک ڈاؤن: ’بھارت کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا‘

ان سو دنوں کے دوران سخت پابندیوں کے باوجود کشمیر میں مظاہروں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

27 اکتوبر  2019 کی اس تصویر میں سری نگر میں کشمیریوں نے  ایک  مظاہرے کے دوران سڑک پر ٹائر  جلا رکھے ہیں۔ (اے ایف پی)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو آج 100 دن پورے ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گذشتہ 70 سال سے جاری اس تنازع میں اُس وقت شدت آئی جب پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کی مرکزی حکومت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے علاقے کو دو وفاقی اکائیوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے خطے میں کرفیو جیسی صورت حال ہے۔

اس حوالے سے کشمیر کے لوگوں میں سخت ردعمل پایا جاتا ہے اور وہ اسے بھارتی حکومت کی جانب سے علاقے میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔ لوگوں کو روزمرہ کے کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے اور گلیوں محلوں میں ہونے والے مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے باعث حالات معمول پر نہیں آسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی حکومت کی جانب سے کئی علاقوں میں ٹیلی فون اور موبائل سروس بحال کرنے، سڑکوں پر سے رکاوٹیں ہٹانے اور کرفیو میں نرمی جیسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جن کا مقصد علاقے کے حالات کو تشدد کی جانب جانے سے بچانا تھا۔

بھارتی حکومت کے اس اقدام سے قبل ہزاروں اضافی فوجیوں کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔ یہ اُن سات لاکھ فوجیوں کے علاوہ ہیں جو عرصہ دراز سے کشمیر میں موجود ہیں۔ فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث کشمیر میں ذرائع آمدورفت تقریباً مفلوج ہو چکے ہیں۔

پابندیوں کے باعث سینکڑوں سکول اور کالجز تین ماہ سے زائد عرصے سے بند ہیں اور طلبہ اس لاک ڈاؤن کے بدترین متاثرین ثابت ہو رہے ہیں۔ دکانداروں نے بطور احتجاج اپنی دکانیں بند کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

حالات پھر بھی کشیدہ

ان 100 دنوں کے دوران سخت پابندیوں کے باوجود کشمیر میں مظاہروں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ عسکریت پسندوں کی جھڑپیں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے غیر مقامی افراد پر حملے کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی فوجی کشمیر کی سڑکوں پر جگہ جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے کچھ کو بعدازاں رہا کر دیا گیا۔ حکومت نے کشمیر کے بیرونی دنیا سے زیادہ تر مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہیں۔ یہاں تک کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چل رہی۔

تاہم حکام نے کچھ پابندیوں میں نرمی ضرور کی ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ اسے سڑکوں پر پُرتشدد مظاہرے روکنے کی ضرورت ہے جو اس علاقے میں معمول کا حصہ ہیں۔

صحافی امِت بروہہ نے دی ہندو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ایک کشمیری صحافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’آرٹیکل 370 صرف ایک کھال کی طرح تھا، جس پر کوئی گوشت نہیں تھا۔ اب ہم سے یہ کھال بھی چھین لی گئی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کشمیر میں بھارت کے حوالے سے بات کی ہے۔ اب ہماری گفتگو کی بنیاد کو ہی چھین لیا گیا ہے۔‘

امِت کے مطابق کشمیر میں انہوں نے جن لوگوں سے بھی بات کی، اس میں ایک نکتہ واضح تھا کہ لوگ کمانڈ میں تھے۔ جس دن یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو بھارتی حکومت نے سری نگر کا دورہ کروایا، اس دن کسی نے ہڑتال کی کال نہیں دی تھی، یہ سب خودبخوا ہوا تھا۔

کشمیر میں لاک ڈاؤن کے 100 دن، کب کیا ہوا؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پانچ اگست کو بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے وادی میں بہت بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کرکے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔

وزیر داخلہ امِت شاہ نے راجیہ سبھا (بھارتی قومی اسمبلی) کے خصوصی اجلاس میں بتایا تھا کہ صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے، جس کے بعد خطے کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی تھی۔ اِمت شاہ نے ایوان میں کہا تھا کہ ’یہ قدم فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔‘

اس پر پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی گئی تھی۔ پاکستان کی جانب اس معاملے کو اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ملک بھر میں گذشتہ 100 کے دوران متعدد احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہر جمعے کو کشمیر آوور منانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے باضابطہ خاتمے اور لداخ اور جموں و کشمیر کی دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم پر نئی دہلی اور چین کے درمیان بھی سفارتی جھڑپ ہوئی اور کئی دہائیوں سے کشمیر کے ایک حصے لداخ پر بھارت کے ساتھ تنازع میں ملوث چین نے نئی دہلی کے یک طرفہ فیصلے کی مذمت کی۔

دوسری جانب یورپی ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر کشمیر کا دورہ کیا۔ ان ارکان کا تعلق یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا