رسالپور: دھماکہ خیزمواد ناکارہ بنانے کی تربیت دینے والا فوجی سکول

اس تربیتی سکول میں بین الاقوامی فوجی بھی تربیت حاصل کر چکے ہیں، جن میں قطر، عراق، اردن، سری لنکا، برطانیہ اور سعودی عرب کے فوجی شامل ہیں۔

رسالپور میں بنائے گئے پاکستان فوج کی انجینیئرنگ کور کے کاؤنٹر آئی ای ڈی سکول میں افسران، جوانوں اور خصوصی دستوں کو جدید خطوط پر دھماکی خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے اس سکول کا دورہ کیا، جہاں اسے ہر طرح کی آئی ای ڈیز دکھائی گئیں اور مختلف حالات میں انہیں ناکارہ کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے۔

اس موقعے پر لیفٹیننٹ کرنل مامون سے ملاقات ہوئی، جو مارچ 2015 میں دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کے عمل کے دوران حادثے کا شکار ہوئے لیکن ان کے حوصلے اب بھی جوان ہیں اور وہ اس سکول میں بطور انسٹرکٹر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا، تو خیبرپختونخوا کی وادی تیراہ میں آئی ای ڈیز کلسٹر کو تباہ کرنا تھا، اس دوران ایک اور آئی ای ڈی کا دھماکہ ہوا، جس کی نشاندہی نہیں ہو پائی تھی اور انہیں شدید چوٹیں آئیں۔

لیفٹیننٹ کرنل مامون کے مطابق انہیں صحت یاب ہونے میں ایک سال لگا۔

دھماکے کے موقعے کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ اطمینان تھا کہ شہید ہونے جا رہا ہوں، ملک الموت کا منتظر تھا۔‘

لیفٹیننٹ کرنل مامون، جو دورانِ تربیت اعزازی شمشیر بھی حاصل کر چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک زندگی ہے، موت خود اس کی حفاظت کرتی ہے، اس لیے اللہ نے دوسری زندگی عطا کی تاکہ جو خواب نامکمل ہیں، انہیں مکمل کر سکوں۔‘

اس تربیتی سکول میں بین الاقوامی فوجی بھی تربیت حاصل کر چکے ہیں، جن میں قطر، عراق، اردن، سری لنکا، برطانیہ اور سعودی عرب کے فوجی شامل ہیں۔

اس حوالے سے تربیتی سکول کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر تیمور نے بتایا کہ ’یہ یونٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گذشتہ کئی برسوں سے کام کر رہا ہے۔ خیبر ون، ٹو، ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن میں یہاں سے تربیت یافتہ دستے خدمات سرانجام دینے گئے، جن کے فرائض میں علاقے کا سرچ آپریشن اور بم سے کلئیرنس شامل ہے۔‘

یہاں موجود افسران نے بتایا کہ دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ کرنے سے پہلے انہیں ڈھونڈنا بھی اہم مرحلہ ہے کیونکہ ڈیوائسز کبھی زیرِ زمین ہوتی ہیں، کبھی نالوں میں تو کبھی کسی گاڑی کے ساتھ منسلک کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بارودی دھماکوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکاروں کی جان جا چکی ہے۔

افسران کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو تلاش کرنے کے لیے فوجی دستے، آلات کی مدد حاصل کرتے ہیں جبکہ روبوٹس اور خصوصی کرین کا بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انسانی جان کا ضیاع نہ ہو۔

سکول میں بطور انسٹرکٹر کام کرنے والے صوبیدار ساجد نے بتایا کہ ’انہوں نے اب تک 900  سے زائد دھماکہ خیز ڈیوائسز ناکارہ کی ہیں اور ہر بار موت کا سامنا کیا ہے۔‘

جنگ کے بعد علاقے کی کلیئرنس کے لیے دھماکہ خیز مواد یا آئی ای ڈیز کو ڈھونڈا جاتا ہے، جو اکثر گھروں میں، کمرے میں رکھے فرنیچر میں یا سرنگوں میں پائی جاتی ہیں اور ان میں بال بیرنگ سمیت دیگر تباہ کن اجزا رکھے جاتے ہیں تاکہ زیادہ نقصان کیا جا سکا۔

ان آئی ای ڈیز کو ریموٹ سے بھی کنٹرول کیا جاتا ہے، جس کی رینج ایک کلومیٹر ہوتی ہے جبکہ آئی ای ڈی سے دھماکہ کرنے کے لیے کمانڈ دی جاتی ہے۔

کئی بار ایسے بھی ہوتا ہے ایک جگہ پر دھماکے کے بعد وہاں موجود فوجی اہلکاروں کی لاشوں میں بھی آئی ای ڈی رکھ دی جاتی ہے تاکہ جب اٹھانے کے لیے مزید نفری آئے تو وہ آئی ای ڈی پھٹ جائے۔

 آئی ای ڈی کی مختلف اقسام ہیں جن میں ایک ’کیو سی آئی ای ڈی‘ ہے، جو ڈرون سے نیچے پھینکی جاتی ہے۔

دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ کرنے سے پہلے خصوصی سوٹ پہنا جاتا ہے، جس کا وزن ہیلمٹ سمیت 40 کلو ہے۔

جب حوالدار گل شیر سے پوچھا گیا کہ یہ خصوصی سوٹ دھماکوں سے کتنا بچاتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا: ’یہ سوٹ جسم کے پرخچے اڑنے سے بچاتا ہے۔ اگر دھماکہ کم نوعیت کا ہو تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ جان جا سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان