امریکی ریاست مزوری سے اڑان بھر کر ایران کے تین جوہری تنصیبات پر حملے کرنے والے بی2 بمبار طیاروں کے پائلٹوں کو 37 گھنٹے کے اس طویل اور تھکا دینے والے دوطرفہ سفر کے دوران مائیکروویو، سنیکس اور یہاں تک کہ ٹوائلٹ کی سہولت بھی دی گئی تھی۔
امریکی فضائیہ کے بمبار طیارے جمعے کو کنساس سٹی کے قریب وائٹ مین ایئر فورس بیس سے روانہ ہوئے اور فردو میں موجود ایرانی جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے کے لیے 18 گھنٹے سے زائد طویل یک طرفہ پرواز کی۔
امریکی حکام نے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ’آپریشن مڈ نائٹ ہیمر‘ نامی اس مشن میں متعدد بار فضا میں ایندھن بھرا گیا اور ریڈارز سے بچتے ہوئے مکمل خاموشی کے ساتھ کارروائی کی گئی۔
اتنے طویل اور کٹھن مشن کو سہولت سے مکمل کرنے کے لیے بی2 سپرٹ طیارے کے کاک پٹ میں ایک چھوٹے فریج، مائیکروویو اور ٹوائلٹ جیسی اہم سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اس میں اتنی جگہ بھی موجود ہوتی ہے کہ ایک پائلٹ لیٹ کر آرام کر سکے جبکہ دوسرا ساتھی پرواز جاری رکھے۔
ہر بی2 طیارے کی قیمت دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور انہیں سرد جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیار لے جانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
یہ نارتھ روپ کمپنی کا بنایا ہوا طیارہ 1997 میں متعارف ہوا جو چمگادڑ کے پروں جیسے ڈیزائن اور سٹیلتھ (ریڈار سے بچنے کی صلاحیت) کے لیے مشہور ہے۔ فی الحال امریکہ کے پاس 19 بی2 بمبار طیارے سروس میں موجود ہیں جبکہ ایک طیارہ 2008 کے حادثے میں ضائع ہو چکا ہے۔
طیارے میں صرف دو پائلٹ ہونے کی وجہ سے طویل مشن کے دوران یہ خودکار نظام پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ ماضی میں عملے نے اس سفر کو سہل بنانے کے لیے ساتھ میں فولڈنگ بیڈ یا سونے کے گدے بھی رکھے۔
ایران کے خلاف کیا گیا یہ مشن نائن الیون کے بعد افغانستان پر ابتدائی امریکی حملوں کے بعد بی2 طیاروں کا سب سے طویل مشن تھا۔
اگرچہ یہ بمبار طیارے مشن کے دوران زیادہ تر تنہا پرواز کرتے رہے لیکن ایرانی فضائی حدود کے قریب وہ لڑاکا طیاروں اور معاون طیاروں کے ساتھ شامل ہو گئے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ڈینیئل کین نے کہا: ’بی2 طیاروں نے ایک پیچیدہ، انتہائی مربوط انداز میں معاون طیاروں کے ساتھ رابطہ قائم کیا، جس میں وقت کا درست تعین اور مختلف نظاموں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ضروری تھی۔‘
اصل بمباری ہفتے کی شام 6:40 بجے (ایسٹرن ٹائم) شروع ہوئی اور صرف 25 منٹ جاری رہی۔
مرکزی بی2 بمبار طیارے نے فردو کے مقام پر دو ’BU-57 ‘ بنکر بسٹر بم گرائے جن میں سے ہر ایک کا وزن 15 ٹن تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ امریکہ نے کسی جنگ میں GBU-57 بم استعمال کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنرل کین نے بتایا کہ باقی بمبار طیاروں نے دو دیگر اہداف پر 14 ’میسیو آرڈیننس پینیٹریٹر‘ (MOPs) بم گرائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ذاتی میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر حملے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا: ’دنیا میں کوئی اور فوج یہ کام نہیں کر سکتی تھی۔‘
صدر نے دعویٰ کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا گیا ہے اگرچہ نقصان کی اصل حد واضح نہیں، اور بعد میں سیٹلائٹ تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقصان اتنا زیادہ نہیں جتنا ابتدا میں بتایا گیا تھا۔
ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’سب سے بڑا نقصان زمین کے نیچے گہرائی میں ہوا ہے۔‘ اور پھر لکھا: ’بلز آئی‘ (عین درمیان میں نشانہ)۔
پیر کو ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے قطر میں امریکی فضائی اڈے پر میزائل حملہ کیا۔ ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق اس مشن کو ’بشائر الفتح‘ (فتح کی نوید) کا نام دیا گیا جس میں تہران نے انتقام لینے کا وعدہ کیا تھا۔
ایران کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایران سے ایٹمی بم چھین لیا ہے اور ساتھ ہی حکومت کی تبدیلی کی بات بھی چھیڑی تو تنازع بڑھنے لگا۔ تب وائٹ ہاؤس نے فوری وضاحت دی کہ صدر کا مطلب صرف ایک سوال اٹھانا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دنیا بھر کے رہنما خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر کوئی بڑا بحران پیدا نہ ہو۔
© The Independent