پرانے سکے اور نوٹ جمع کرنے والا کوئٹہ کا شہری

عمران الہدیٰ کو ان کا شوق کبھی گھر میں جگہ کی کمی کا احساس دلاتا ہے اور کبھی گھر والوں سے تکرار کی نوبت بھی آجاتی ہے۔

اس مکان کے ایک کمرے کی حالت ایسی ہے کہ بیٹھنے کی جگہ کم ہے اور ہر طرف کتابیں، پرانی اور نایاب اشیا کے علاوہ ڈاک ٹکٹس کے کیٹلاگز اور سکے رکھے ہوئے ہیں۔

کوئٹہ کے ایک شہری کو ان کا شوق کبھی گھر میں جگہ کی کمی کا احساس دلاتا ہے اور کبھی گھر والوں سے تکرار کی نوبت بھی آجاتی ہے۔

عمران الہدیٰ کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ کبھی گھر میں میری جمع کردہ اشیا کی وجہ سے جگہ کم پڑ جاتی ہے اور گھر والے کہتے ہیں کہ یہ کیا جمع کرتے رہتے ہو۔

عمران کے بقول وقت کے ساتھ جب گھر والوں کو سمجھ  آ رہی ہے کہ یہ شوق بلاوجہ نہیں ہے اس لیے وہ خوش بھی ہوتے ہیں۔ سکے اور ڈاک ٹکٹس کے علاوہ دیگر اشیا جمع کرنے والے عمران الہدیٰ پیشے کے لحاظ سے ایک مدرس ہیں اور کوئٹہ کے سائنس کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ جغرافیہ پڑھاتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ شوق وہ 1970 سے جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے ہم عصر اکثر ساتھی یہ شوق جاری نہ رکھ سکے۔ ان کے پاس چالیس سے پچاس ہزارکے ڈاک ٹکٹ، پاکستان کے آج تک کے تمام سکے اور کرنسی نوٹ موجود ہیں۔

عمران الہدیٰ کے پاس دنیا کے دیگر ممالک کے بھی سکے اور کرنسی نوٹ موجود ہیں جن میں پاکستان کے سونے اور چاندی کے سکے بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک مہنگا اور وقت طلب شوق ہے۔ ’جو سکہ میں نے پانچ سو میں خریدا تھا وہ اب ڈیڑھ لاکھ روپے میں نہیں ملے گا۔‘

عمران الہدیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ شوق اب اس لیے بھی مہنگا ہو گیا ہے کہ یہ چیزیں اب دستیاب نہیں ہیں، چونکہ انہیں باہر کے ممالک انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجا جا رہا ہے۔ ’اب ہم یہ چیزیں پاکستان کے بڑے شہروں میں نیلامی کے دوران خرید کر شوق پورا کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق دنیا کے بہت سے ممالک میں لوگ یہ شوق رکھتے ہیں۔ ’چین میں لاکھوں افراد سکے جمع کرنے والے ہیں جبکہ پاکستان میں ایک ہزار بھی نہیں ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران کے مطابق انہوں نے اب تک لاتعداد سکے اور کرنسی نوٹ جمع کیے ہیں جو گھر کے کئی کمروں میں رکھے ہیں۔

شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ اندرون ملک بھی جاتے ہیں اور اس کے علاوہ ایران، سری لنکا اور تھائی لینڈ کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

ماضی کو یاد کر کے وہ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہ شوق آسان تھا کیونکہ کوئٹہ میں کبھی غیرملکی سیاح بہت آتے تھے جن سے انہیں سکے اور کرنسی نوٹ مل جاتے تھے لیکن اب حالات کی خرابی کے باعث یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ ’جدت اور موبائلز نے بچوں سے بہت سے شوق چھین لیے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو بھی سکے اور ڈاک ٹکٹس جمع کرنے کی جانب راغب کر رہے ہیں۔‘

عمران کے مطابق کوئٹہ میں اس طرح کا شوق رکھنے والے وہ پہلے شخص ہیں کیونکہ اکثر لوگ صرف ڈاک ٹکٹس اور بعض صرف سکے جمع کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب کسی سے کوئی سکہ یا کرنسی نوٹ طلب کریں جس کے لیے وہ بے کار سی چیز ہو لیکن وہ دینے پر آمادہ نہ ہو۔ ان کے پاس خان آف قلات کے دور کے سکے بھی موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشکل جتنی بھی ہو وہ اپنا شوق چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی