پاکستان نے 2025 میں 20 افغان صحافیوں کو واپس وطن بھیجا: آر ایس ایف

آر ایس ایف کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ اس جبری بے دخلی کا عمل تیز ہو رہا ہے جبکہ درجنوں دیگر پناہ گزین صحافی اب کسی بھی لمحے گرفتار ہونے کے خوف میں رہتے ہیں۔

(گرافک آر ایس ایف)

’بھائی پولیس پھر آئی ہوئی ہے اگر گرفتار ہوا تو مدد کے لیے آنا۔ کل بھی کئی کو پکڑ کر لے گئی تھی۔‘

یہ بات ایک سینیئر افغان صحافی نے چند روز قبل ٹیلی فون پر اپنے پاکستانی صحافی دوست سے کہی۔ شکر ہے اس کے بعد ان کا دوسرا فون نہیں آیا لیکن صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کا کہنا ہے کہ 2025 میں کم از کم 20 افغان صحافیوں کو جو پاکستان میں پناہ گزین تھے، زبردستی واپس ان کے ملک بھیج دیا گیا۔

ادارے کا ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس جبری بے دخلی کا عمل تیز ہو رہا ہے جب کہ درجنوں دیگر پناہ گزین صحافی اب کسی بھی لمحے گرفتار ہونے کے خوف میں رہتے ہیں۔

ان افغان نیوز پروفیشنلز میں سے کچھ نے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کو اپنی مسلسل پریشانی کے بارے میں بتایا۔ اس غیر سرکاری تنظیم نے پاکستانی حکام سے ان بے دخلیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور بین الاقوامی برادری سے دیگر ممالک میں ان کی دوبارہ محفوظ آباد کاری کے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

طالبان کے نظام اور مبینہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کی خاطر تقریباً 200 افغان صحافیوں نے، جن کی مدد آر ایس ایف کر رہی تھی، امید ظاہر کی کہ وہ پاکستان میں اپنے خاندانوں کے ساتھ اس وقت تک عارضی پناہ حاصل کر سکیں گے جب تک انہیں تیسرے ملک کے لیے ویزے مل نہ جائیں۔ لیکن مغربی ممالک میں ان کی آبادکاری کا سلسلہ یا تو رک گیا ہے یا سخت سست روی کا شکار ہے۔ اس وجہ سے ان صحافیوں کے انتظار کا وقت کبھی کبھار کئی سال تک بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں، یہ صحافی اب زبردستی افغانستان بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں، جو انہیں طالبان کی انتقامی کارروائیوں کے شدید خطرے میں ڈال دے گی۔

آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ اسے گذشتہ چھ ماہ میں پاکستان کی پولیس کی طرف سے بلاجواز گرفتار کیے گئے افغان صحافیوں کی مدد کے لیے بڑھتی ہوئی تعداد میں رپورٹیں اور درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ان صحافیوں کو حراستی مراکز میں بھیجا گیا اور چند گھنٹے میں بے دخل کر دیا گیا۔ ان میں سے کم از کم 20 افراد کو، جو آر ایس ایف کی مدد لے رہے تھے، زبردستی وطن واپس بھیجا گیا۔

آر ایس ایف کی اس رپورٹ پر پاکستانی حکام کا ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ مناسب دستاویزات رکھنے والے کسی کو بےدخل نہیں کیا جا رہا اور کارروائی محض غیرقانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف ہو رہی ہے۔

صحافیوں کی حفاظت کے لیے متعدد اپیلوں کے باوجود، افغان پناہ گزینوں کی اجتماعی بے دخلی کی پالیسی جو 2023 میں شروع ہوئی، جاری ہے۔ 2025 کی گرمیوں کے بعد سے پناہ گزینوں کے لیے پاکستانی رہائشی ویزے بمشکل ہی بحال کیے گئے ہیں، جس نے انہیں غیر قانونی رہائش کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے پناہ گزین صحافیوں کی بے دخلی کے بارے میں آر ایس ایف کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

’پاکستان میں افغان صحافیوں کی صورت حال ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ طالبان سے بچنے کے بعد، یہ مرد اور خواتین اب بلاجواز گرفتاریوں اور روزانہ بے دخلی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں جو بین الاقوامی اصول کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔

 آر ایس ایف کی جنوبی ایشیا کے ڈیسک کی سربراہ سیلیا مرسیئر نے ان صحافیوں میں سے تین کے بیانات اکٹھے کیے ہیں جو مسلسل دباؤ میں رہنے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر، ان کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے۔

’پاکستانی ویزا تجدید کا عمل اب معطل ہے۔‘

’ہم گرفتار ہونے اور بے دخل ہونے کے خوف میں مسلسل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پولیس کئی بار ہمارے گھر آئی، ہمیں افغانستان واپس جانے کا حکم دیا۔ مجھے بھی کئی بار مارکیٹوں میں روکا گیا اور صرف رشوت ادا کرنے کے بعد ہی چھوڑا گیا۔ میری بیوی اور بیٹی بھی میرے غیر موجودگی میں ہمارے گھر میں گرفتار ہوئیں، لیکن خوش قسمتی سے انہیں چند گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اب کوئی پاکستانی ویزا نہیں ہے۔ ’میں نے کئی درخواستیں جمع کرائی ہیں، جنہیں سب مسترد کر دیا گیا ہے، اور اب تجدید کا عمل مکمل طور پر معطل ہے۔ میری بیوی بیمار ہے، لیکن درست پاکستانی ویزا نہ ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ اس کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں بے دخل کیا گیا تو ان کی زندگی خطرے میں ہوگی: ’طالبان مجھ پر رحم نہیں کریں گے۔ میں اس وقت ایک ایسے میڈیا آؤٹ لیٹ کے لیے کام کر رہا ہوں جسے وہ ’ان کے مفادات کے خلاف‘ سمجھتے ہیں۔‘ یہ صحافی تقریباً دو سال سے تیسرے ملک میں دوبارہ آبادکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’طالبان کی خوفناک حراست میں لیے جانے کے بعد، مجھے اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہونا پڑا۔ لیکن پاکستان میں زندگی نے ہمیں نہ تو سکون دیا اور نہ ہی سکیورٹی۔ ہر دن گرفتار ہونے کے خوف میں گزرتا ہے۔‘

پاکستانی پولیس کی جانب سے گرفتار ہونے کے بعد حراستی مرکز میں ایک ہی کمرے میں 60 سے زیادہ لوگ کے ساتھ انتہائی غیر صحت مند حالات میں انہیں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں صرف دو کھانے فراہم کیے گئے، اور ان کے ساتھ مجرموں والا سلوک کیا گیا۔ خواتین، بچے، اور بزرگ انتہائی بری حالت میں رکھے گئے تھے۔

پولیس نے انہیں حراست کے دوران طورخم سرحد پر منتقل کیا اور افغانستان بے دخل کر دیا۔ انہیں احتجاج کرنے یا رابطہ کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔

پاکستان میں افغان شہریوں کے لیے ویزے کی تجدید انتہائی مشکل، مہنگی اور کرپشن کی کہانی ہے۔ رسمی قیمت ہر شخص کے لیے 15 ڈالر (تقریباً 13 یورو) ہے، لیکن حقیقت میں، آپ کو ہر مہینے تقریباً 100 ڈالر (تقریباً 86 یورو) ادا کرنے ہوتے ہیں، جس میں سے زیادہ تر وزارت داخلہ سے جڑے ہوئے دلالوں کو جاتا ہے۔ اس کے بغیر، درخواستیں عام طور پر مسترد کر دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے پناہ گزینوں کو بھاری جرمانے ادا کرنے یا گرفتاری کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے خاندانوں کے لیے، یہ ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے۔

بعض صحافیوں کو گھر پر پولیس کے چھاپے سے بچنے کے لیے چھپنا پڑتا، رات پارکوں یا ہسپتالوں میں گزارنی پڑتی تھی۔ انہیں بار بار گھر تبدیل کرنا پڑا۔ ان میں سے واپس بھیجے جانے والی ایک خاتون افغان صحافی نے بتایا کہ ’جب میں سرحد پار کر رہی تھی، میرا جسم آگے بڑھ رہا تھا، لیکن میری روح مر چکی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا: مارا جائے گا، قید میں رکھا جائے گا، یا زیادتی کی جائے گی۔ میں بے جان ہو کر چل رہی تھی۔ یہ ناقابل برداشت آزمائشیں مجھے گہری نفسیاتی پریشانی میں مبتلا کر چکی ہیں۔ ہر دن ویزا کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ کی طرف ایک الٹی گنتی کی طرح محسوس ہوتا ہے، اور بے دخلی کا خوف ایک مستقل سایہ بن گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی