شوق کا مول نہیں: مارخوروں کے محافظ

بلوچستان میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے، جہاں ہزاروں کے حساب سے مارخور بھرپور طریقےسے پھل پھول رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز ’شوق کا مول نہیں‘ کی دوسری قسط پیشِ خدمت ہے جس میں ہم آپ کو بلوچستان کے ایک ایسے شوقین کی کہانی سنا رہے ہیں جن کے پاس چھ ہزار سے زیادہ مارخور موجود ہیں۔

مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے، جس کی آبادی شدید دباؤ کا شکار ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں یہ معدوم نہ ہو جائے۔

تاہم بلوچستان میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں ہزاروں کے حساب سے مارخور بھرپور طریقےسے پھل پھول رہے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس علاقے کا نام طور غر ہے اور یہ ضلع قلعہ سیف اللہ میں واقع ہے۔

مارخوروں کے تحفظ کے اس منصوبے کے سربراہ نواب محبوب جوگیزئی کے مطابق طورغر منصوبے کے تحت ان کے علاقے میں مارخوروں کی تعداد چھ ہزار تک پہنچ گئی ہے، جب کہ دو ہزار اڑیال اس کے علاوہ ہیں۔

یہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں مارخوروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

محبوب جوگیزئی نے یہ حیرت انگیز کامیابی کیسے حاصل کی؟

انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن میں قلعہ سیف اللہ ضلعے میں مارخور بہت عام تھے، لیکن پھر جب افغانستان میں جنگ شروع ہوئی اور پناہ گزینوں نے اس علاقے کا رخ کیا تو رفتہ رفتہ مارخور ختم ہوتے چلے گئے۔

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اب یہاں کلاشنکوف آ گئی تھی اور لوگ احتیاط سے نشانہ باندھنے کے بجائے ایک برسٹ مار کر شکار کرنے لگے تھے۔

حالات یہاں تک پہنچے کہ نواب صاحب کے بقول جب ان کے ایک غیرملکی فوٹوگرافر دوست، جو بلوچستان کی جنگلی حیات پر فلم بنا رہا تھے، مارخوروں کی تصویریں لینے کے لیے آئے تو وہ اور نواب صاحب دس دن تک پہاڑوں میں مارے مارے پھرتے رہے، لیکن کہیں مارخور کا نشان تک نہ ملا۔ آخر گیارھویں دن کہیں جا ایک مادہ مارخور اور اس کا بچہ نظر آئے اور فوٹوگرافر نے تصویر لے لی۔

اس واقعے نے نواب محبوب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انہیں احساس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ جانور بالکل معدوم ہو جائے۔

اس کے تحفظ کی خاطر انہوں نے مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا اور انہیں احساس دلایا کہ اس شاندار جانور کا وجود کس قدر ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس مقصد کی خاطر انہوں نے 1984 میں ایک این جی او بنائی اور مقامی چرواہوں کے تعاون سے مارخور کے شکار پر مکمل قابو پا لیا گیا اور رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا جو آج بھی جاری ہے۔

نواب محبوب نے بتایا کہ قلعہ سیف اللہ میں پائے جانے والا مارخور گلگت بلتستان کے مارخور سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے سینگ چھوٹے ہوتے ہیں اور اس کے بل بھی کم ہوتے ہیں۔

اس مارخور کو کوہِ سلیمان کی مناسبت سے سلیمان مارخور کہا جاتا ہے۔

محبوب جوگیزئی نے این جی او چلانے اور مارخوروں کے تحفظ پر مامور عملے کا خرچ پورا کرنے کی خاطر ٹرافی ہنٹنگ بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت سال میں دس مارخوروں کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔

اس میں حصہ لینے کے لیے یورپ اور امریکہ سے شکاری آتے ہیں۔ اس شکار کے لیے بوڑھے مارخور منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کے شکار سے حاصل ہونے والی رقم بقیہ جانوروں کے تحفظ پر خرچ ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا