عالمی عدالت انصاف کیا کرسکتی ہے؟

کلبھوشن جادیو کے مقدمے میں عالمی عدالت انصاف کیا کرسکتی ہے اور کیا اس فیصلے پر عمل درآمد پاکستان کے لیے لازمی ہوگا؟

بھارتی قومی پرچم والی ایک گاڑی دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے باہر کھڑی ہے۔ فوٹو۔رائٹرز

عالمی عدالت انصاف میں مبینہ بھارتی جاسوس کماندڑ کلبھوشن جادیو کیس کی سماعت اس سال فروری میں دی ہیگ میں ہوئی۔ بھارت نے کلبھوشن کو پھانسی دینے کے پاکستانی فیصلے کے خلاف اور ان تک سفارتی رسائی کے لیے اپیل کر رکھی ہے۔ چار روز میں دو طرفہ دلائل سننے کے بعد عدالت فیصلہ مخفوظ کرے گی اور توقع ہے کہ تین سے چار ماہ میں فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔

عالمی عدالت انصاف کیا ہے، کب بنی اور اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟

 عالمی عدالت انصاف کا قیام 1945 میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عمل میں لایا گیا۔ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے مرکزی عدالتی نظام کا بنیادی جز ہے جس کا مقصد دو ممالک کے درمیان قانونی معاملات کو حل کرانا ہے۔ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عدالت نے اپنے قیام کے ایک سال بعد 1946 میں کام کا آغاز کیا۔ یہ عدالت عالمی اداروں، اجسام اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دائر کردہ قانونی و تکنیکی معاملات پر انصاف فراہم کرتی ہے۔ یہ عدالت 15 جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ بینچ میں شامل ججز کا تعلق چین، سلواکیہ، فرانس، مراکش، برازیل، امریکہ، اٹلی، یوگینڈا، بھارت، جمیکا، آسٹریلیا، روس، لبنان، جاپان اور بیلجیم سے ہے۔

صومالیہ سےتعلق رکھنے والے عبدالقوی احمد یوسف عالمی عدالت انصاف کے صدر ہیں جبکہ چین سے تعلق رکھنے والے زیو ہینجن اس کے نائب صدر ہیں۔ ان جج صاحبان کو نو سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔

 کیا عالمی عدالت انصاف سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے؟

 یہ عدالت خود سے کسی معاملے پر کارروائی نہیں کر سکتی اورنہ کارروائی کا حکم سے سکتی ہے۔ اس عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے ضروری ہے کہ ریاست خود سے عدالت سے رجوع کرے۔ اسی طرح یہ عدالت نہ تو تحقیقات کا حق رکھتی ہے اور نہ خود مختار ریاستوں کے اقدام پر سماعت کر سکتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی اہمیت

اقوام متحدہ کے قانون 94 کے تحت عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کرانا لازمی ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ تاہم کوئی بھی فریق فیصلے کے دائرہ کار کو چیلینج کرسکتا ہے جس کی عدالت تشریح پیش کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عدالتی فیصلے کے بعد اگر ایسے حقائق سامنے آ جاتے ہیں جو پہلے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور جس سے عدالتی فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے تو دونوں فریقین میں سے کوئی بھی فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دے سکتا ہے؟

 اگر کوئی ملک فیصلے پر عمل درآمد نہ کرے؟

اقوام متحدہ قانون 93 کے مطابق تمام رکن ممالک عالمی عدالت کے بھی رکن ہیں اور قانون 94 کے مطابق اگر کوئی ملک عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہیں کرتا تو جس ملک کے حق میں فیصلہ آئے گا وہ یہ معاملہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سلامتی کونسل دوسرا بڑا ادارہ ہے جو دنیا میں امن سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ اس کے رکن ممالک کی تعداد 15 ہوتی ہے جن میں سے پانچ مستقل اراکین ہیں۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔ سلامتی کونسل میں زیر غور کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے سادہ اکثریت ہونے کے علاوہ ضروری ہے کہ پانچوں مستقل اراکین اس پر متفق ہوں ورنہ اس معاملے پر رائے شماری نہیں ہو سکتی۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں سلامتی کونسل متعقلہ ملک پر فیصلے کے عمل درآمد کے لیے ہر طرح کا دباو ڈال سکتی ہے۔

کلبھوشن میں عالمی عدالت کیا حکم کرسکتی ہے؟

عالمی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کلبھوشن جادیو کیس میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چونکہ ابھی دلائل مکمل نہیں ہوئے اس لیے عدالت کے فیصلے کی پہلے سے پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے۔ عدالت جمع کردہ دستاویزات کے پیش نظر سفارتی رسائی کا فیصلہ سنا سکتی ہے لیکن رہائی کا حکم نہیں دے سکتی کیونکہ جاسوسی کے علاوہ کلبھوشن جادیو کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی درج ہیں جس کے تحت ایک الگ مقدمہ ہونا ہے اس لیے ابھی اس کی رہائی ممکن نہیں ہے۔‘

عدالتی حکم کے تحت پاکستان رسائی دینے کا پابند ہوگا لیکن یہ حالات پر منحصر ہے کیونکہ اسے جاسوس مانا گیا ہے اور بقول احمر بلال جاسوس کو ویانا کنونشن کے قوانین کے مطابق سفارتی رسائی کا حق نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین